کھانے کا مینیو ریاست نہیں طے کرتی

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد ریاست میں بھینس، مرغ اور بکرے کے گوشت کا کاروبار تقریباً پوری طرح بند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ریاست میں گوشت کے کاروبار کی مالیت تقریـباً 50 ہزار کروڑ روپے ہے اور اس روزگار سے پانچ لاکھ لوگ سے منسلک ہیں۔ اس وقت صرف اتر پردیش ہی نہیں پورے ملک میں ہر طرف بی جے پی کی گوشت کی پالیسی پر بحث ہو رہی ہے۔

بی جے نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کا وہ اقتدار میں آتے ہی غیر قانونی مذبح خانوں پر پابندی عائد کر دے گی۔ سابقہ غیر بی جے پی حکومتوں کے دوران ریاست کے بیشتر مذبح خانے حکوتی عدم دلچسپی، بدعنوانی اور نااہلی کے سبب کام نہیں کر رہے تھے ۔ قصبوں اور شہروں میں گوشت کے چھوٹے تاجر ایک طویل عرصے سے کسی لائسنس یا پرمٹ کے بغیر خود اپنے مقامات پر بھینس، بکروں اور مرغوں کو ذبح کر کے گوشت کی دکانوں پر فروخت کر رہے تھے۔

جدید مذبح خانوں کی تعمیر کے لیے ماحولیاتی ادارے نے جو ضوابط طے کیے ہیں وہ انتہائی سخت اور مہنگے ہیں جن کے سبب حکومتوں نے نئے اور جدید مذبح خانے تعمیر کرنے سے گریز کیا اور گوشت کے کاروبار کے غیر قانونی طریقہ کار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر کے بالواسطہ طور پر اس کی حوصلہ افزائی کی۔

گذشتہ عشروں میں ریاست میں بڑی تعداد میں جدید طرز کے مکمل خودکار نجی سلاٹر ہاؤسز وجود میں آئے جو ہر برس ریاست سے 20 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے گوشت غیر ممالک کو بر آمد کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ ایکسپورٹ سلاٹر ہاؤسز بھی ریاست کی نئی حکومت کے فیصلے کے بعد بند پڑے ہیں۔

گوشت کے برآمد کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح کا ماحول اتر پردیش اور بھارت میں بنا ہوا ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ وہ گوشت کا کاروبار نہیں بلکہ کوئی جرم کو رہے ہیں۔ اتر پردیش کے بعد جھارکھنڈ ریاست میں بھی بعض مقامات پر گوشت کے فروخت کے تمام لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ راجستھان میں بھی کئی ہندو تنظیموں نے ہر طرح کے گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھرگجرات میں ریاستی اسمبلی نے قانون میں ترمیم کر کے گئو کشی کی سزا سات برس سے بڑھا کر عمر قید کر دی ہے۔ غیر قانونی طور پر گائے ٹرانسپورٹ کرنے والے ٹرک کو ہمیشہ کے لیے ضبط کر لیا جائے گا اور اور ٹرانسپورٹروں کو کئی لاکھ روپے کے جرمانے کے ساتھ کئی برس کی سزا بھی ہوگی۔ ریاست میں گؤ کشی پر پہلے ہی پابندی عائد ہے اور اس پر موثر طریقے عمل ہو رہا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس وقت ہندوستان میں ہر مسئلے کا سبب گوشت ہے۔ یہاں ایک طویل عرصے سے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گوشت کھانے والے لوگ پرتشدد، بے رحم اور ناپاک ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس سبزی خوری ایک پاک عمل ہے اور سبزی خور بہتر، رحمدل اور نیک انسان ہوتے ہیں۔

عام تاثر کے برعکس ہندوستان کے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد گوشت خور ہے۔ بیشتر ہندوؤں کی طرح مسلمان، عیسائی اور سکھ بھی عمومآ گوشت خور ہیں۔ سبزی یا گوشت کھانا انفرادی معاملہ ہے اور اس کا تعلق شخصی آزادی سے ہے۔ کسی جمہوری ملک میں ایک گروپ کے مذہبی تصور کو آبادی کے دوسرے گروپ پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ کون کیا کھائے گا اس کا فیصلہ ریاست نہیں کر سکتی۔

یہ بحث بھینس اور بکرے کے گوشت تک ہی محدود نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں مچھلی بازار اور انڈے کی فروخت بھی اس کی زد میں آئیں گے۔

جمہوریت میں فیصلے اکثریت کے ووٹ سے ہوتے ہیں۔ حکومتیں اپنی اکثریت کے زور پر کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہیں لیکن کسی جمہوری ملک میں کوئی حکومت کسی شہری کے انفرادی حق کو سلب نہیں کر سکتی۔ کوئی جمہوری حکومت کسی گروپ کے مذہبی تصورات کو کسی دوسرے گروپ پر مسط کر نے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

جمہوری حکومتیں یہ طے نہیں کرتیں کہ کس کو کیا کھانا ہے، کس کو کیا پہننا ہے اورکس کے تصورات کیا ہوں گے۔ جمہوریت میں فرد کی آزادی ہی سب سے سے مقدس تصور کی جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے