جہاد سے ردُّالفساد تک(حصّہ سوم)

گذشتہ کالم میں ہم نے فلسفہ ولی اللہ کے بنیادی نقاط کو محور بنا کر دہشت گردی کی بیخ کنی میں عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ مذہبی اجارہ داروں اور حکومتی طبقے کو اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی۔کیونک جب تک یہ تینوں بیک وقت ملکر اس ناسور کے خلاف صف آراء نہیں ہونگے۔ ہمارے جوانوں کی قربانیاں وقتی مرہم کا کام دے سکتی ہیں لیکن یہ اس موذی مرض کا مکمل حل نہیں ثابت ہونگی۔
اس سہ فریقی اشتراک کا ہم خلاصہ یوں بیان کرسکتے ہیں۔کہ عسکری اداروں کا کام فی ا لفور آپریشن کرکے جسم کے موذی حصے کو الگ کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ مذہبی طبقے اور حکومتِ وقت کا کردار اُس موذی مرض کے دائمی اثرات سے بچانے کے لئے جسم کی تا حیات حفاظت کرنے کے لئے پُر اثر داوا ؤں کا ادراک، استعمال اور اس دوا کے پُر اثر نتیجوں کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

یہاں ہم ایک نقطے کی وضاحت کرتے چلیں کہ مذہب سے بغض و عناد رکھنے والوں سے بالکل برعکس ہم اس ذہنیت کی سختی سے مخالفت کریں گے کہ دہشت گردی صرف مذہب پسندوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ فکر اور سوچ غلط اور حقیقت کے عین منافی ہے۔ آج کل بدقسمتی ہے کہ ہمارا ملک دو انتہا پسند طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ ایک مذہبی سخت گیر اور متشدد طبقہ ہے اور دوسرا سیکولر اور آزادی کے مفہوم سے بے خبر ، انسانی اقدار اور انسانیت کے ابجد سے لا علم آزاد خیال طبقہ ہے۔ یہ دونوں معاشرے کی دو انتہاء ہیں۔ اور دونوں اپنی اپنی جگہ معاشرے میں بگاڑ اور تناؤ کا بنیادی سبب ہیں۔ اور جہاں مذہب پرستوں میں تشدد اور سختی کا عنصر ہے وہاں آزاد خیال لوگوں کا بھی رویہ دین دار اور خدا و رسول پر یقین رکھنے والوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتا جاتا ہے۔

میانہ روی کی روش معاشرے سے ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لہٰذا دہشت گردی مذہبی بھی ہے لیکن قوم پرستی، اور سیکولر آزاد دہشت گرد جب لوگوں کے خالص اور امن پسند دینی نظرے کی بے جا مخالفت اور اس پر سنگ باری کرتے ہیں تو یہ بھی کسی نظریاتی اور ذہنی دہشت گردی سے کم نہیں۔
اور میں نے سوچ و سمجھ کے ساتھ اور پورے ہوش و حواس میں ان تمام مسائل کا حل مذہبی طبقے اور حکومت کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔

ردُالفساد کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی طبقے پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں ۔۔ چاہے وہ کسی بھی دینی مکتبہ فکر کے ہو۔ نہایت ہی محدود اور مسلکی مسالوں سے رچا بسا فقہ اور ایک مخصوص نقطہ نظر کی عکاس تعلیم دی جاتی ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے ۔ کہ ملک کی موجودہ صورتِ حال اور خطے کی بدلتی ہوئی حالت اور ملک دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کو دیکھ کر آج تک کسی دینی مدرسے نے بھی اپنے نصاب میں دہشت گردی، عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر دوسروں کو تہ و تیغ کرنے کے عمل کے خلاف نصاب میں کوئی تعمیری فکر انگیز مواد شامل نہیں کیا ہوگا۔ کسی بھی دینی مدرسے میں دین کے نام پر مذہب کا کاروبارکرنے والوں کی رد کے لئے کوئی ذہن سازی کا پروگرام شروع نہیں کیا گیا۔

وہ دین جس نے اجتہاد کا دروازہ تا قیامت کھول دیا اس دین کے علمبردار اجتہاد کی نعمت سے محروم صرف ٹی وی اور اخبار کی حد تک تو دہشت گردی کی بادلِ نا خواستہ تردید اور مذمت کردیتے ہیں۔ لیکن جن مدارس میں لاکھوں طلبہ کی ذہن سازی ہوتی ہے وہاں انسان دوستی، مسلکی رواداری اور خداپرستی کی وہ تصویر نہیں دکھائی جاتی جس میں کہیں قرآن کہتا نظرآتا ہے کہ ۔۔۔۔ ہم نے انسان کو قابلِ احترام بنا دیا۔۔ اور کہیں خدا خود اپنے بارے میں اطلاع دیتا ہے کہ ،،،،،، اس نے اپنی ذات کے اوپر رحمت کالو حہ لگا دیا کہیں وہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کی قتل قرار دیتا ہے۔ اور کہیں خدائے پاک اپنے نبی کو اپنے منکروں سے نفرت کی اجازت تک نہیں دیتے۔

ان مذہبی پروانوں نے ملک کے گوشے گوشے اور کونے کونے میں پھیل کر وہی آگے سمجھانا ہوتا ہے جو انکو پڑھایا جاتا ہے۔ اور حال یہ کہ یہ بیچارے اپنے فرقوں ، مسلکوں اور اپنے علماء کی برتری اور فوقیت و برتری کی جنگ لڑتے لڑتے دینِ خداوندی سے کہیں دور چلے جاتے ہیں۔ اور ذہنی طور پر یہ کمزور اور فرقہ پرستی کی ایندھن سے پکا ہوا یہ مذہبی طبقہ بہت آسانی سے مفاد پرستوں، قوم و ملک دشمنوں کے جال میں مذہب کے نام پر پھنس جاتا ہے۔اسی طرح وہ لوگ جو کہ علاقائی اور قوم پرستی کے عفریت میں جکڑ جاتے ہیں مذہب سے دوری خدا اور رسول کی تعلیمات اور نظریاتی بنیادوں پر کمزور پسِ منظر انکی اس بے راہ روی میں ایک بنیادی عنصر ہوتا ہے۔

مذہبی طبقے کے ساتھ حکومت وقت کا کردار دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے میں بہت اہم اور بنیادی ہے۔ ایک طرف خدا پرستی اور انسان دوستی کے فروغ میں حکومت سکول اور کالجز کے نصاب میں ایسے بنیادی نظریات کو شامل کرکے ملک کے نوجوانوں کی تعمیری اور انسان دوستی پر مبنی خداپرستی کے ستون پر کھڑی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ حکومت میڈیا اور نشریاتی اداروں کی مدد سے مسلکی ، فروعی اور فرقہ پرستی پر مبنی اختلافات کو کم کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں گلی گلی میں پھیلے مذہبی مدارس کے لئے علماہ کی مدد سے ایک اعلے اور علمی معیار اور شرائط رکھ کر اسکی بھرمار اور اس سے پھیلنے والی فرقہ پرستی اور مسلکی نفرت کی آگ کو کم کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح فلسفہ ولی ا للہی کے تیسرے بنیادی نقطے کو عملی جامہ پہنانا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

معاشی نا انصافی اچھے اچھوں کی طبیعت صاف کر دیتی ہے۔ آقا کے ایک فرمان کا مفہوم کہ معاشی بدحالی کفر کے قریب کر دیتی ہے۔ تو معاشی بدحالی کا شکار آدمی کا دہشت گردوں کے ہاتھوں چڑھ جانا اور اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ملک کو بدامنی کی آگ میں جھونکنا تو میرے خیال میں ایک قابلِ فہم بات ہے۔ ایسے لوگ قومی ، مذہبی، سیاسی اور لادینی دہشت گردوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ لہٰذا ملک میں معیشت کی استحکام اور لوگوں میں غربت کے خاتمے کے لئے عملی جدوجہد دہشت گردی کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ جب لوگوں کے پاس روزگار ہوگا۔ مصروفیت ہوگی تو وہ ملک دشمن اور مذہبی بہروپیوں کا آلہ کار نہیں بنیں گے۔ معاشی طور پر خوشحال بندہ تعمیری سوچ رکھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور جب سوچ تعمیری ہوجاتی ہے تو عمل اور ذہن سے تشدد کا خاتمہ آسان ہوجاتا ہے۔

اسلئے ردُ الفساد کی کامیابی کے لئے ہم سب دعا گو بھی ہیں اور ساتھ ساتھ کھڑے بھی لیکن جب تک اس اور اس جیسے دوسرے آپریشن کی پشت پر خدا پرستی، انسان دوستی اور معاشی مساوات کے اصولوں پر استوار جنگ مذہبی طبقہ اور حکومتِ وقت فوج کے شانہ بشانہ نہیں لڑے گی۔ تو دہشت گردی کے خاتمے کے اس عارضی حل کے دُور رس نتائج حاصل نہیں ہونگے۔ اور ہمیشہ کی طرح اپنے جوانوں کے خون کا نذرانہ دے کر بھی ہم دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے