4 اپریل79ء:اخبار فروش کی صدانے دِل چیردیاتھا

77ء کے انتخابات زوروں پر تھے۔ ایک صبح دادا جی تیار ہو رہے تھے ، انہوں نے اونچے شملے والی پگڑی پہنی اور سفید شلوار قمیض میں ملبوس صحن میں حقہ پینے لگے۔تھوڑی دیر بعد میرے والد مرحوم بھی بوشرٹ اور پتلون پہنے وہاں آ گئے۔ میری ماں نے مجھے صندوق میں پڑاجوڑا پہنا دیا اور کنگھی کرتے ہوئے کہا، ”گوگی کے ابا جی! اس کا دھیان رکھنا“ ہم تینوں گھر سے نکلے تو دادا جی کا ہاتھ والد محترم اور ان کا ہاتھ میں تھامے چل پڑے۔

میری عمر اس وقت لگ بھگ دس گیارہ برس تھی۔ لاہور کے علاقے داروغہ والا سے یہ تین نسلیں پیدل ناصر باغ پہنچیں تو آگے انسانوں کاٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ وہاں ذوالفقار علی بھٹو نے خطاب کرنا تھا۔ مجھے یاد ہے ہجوم میں کھڑے میرے والد نے مجھے اپنے کاندھوں پر بٹھایا اور میں دور سٹیج پر گرجتے بھٹو کو دیکھ اور سن رہا تھا۔ وہ غالباً کسی ”سفید ہاتھی” کے لتے لے رہے تھے۔ قریب پون گھنٹے کی اس تقریر کے دوران مجمعے ہر ایسا سکوت طاری تھا جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ آج میں حیران ہوں کہ لاکھوں کے اس مجمع میں اس قدر ڈسپلن کیسے ممکن ہو سکا تھا. شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے کہا تھا کہ ”خاموش ہو جائیں اور میری بات سنیں“ اور میں نے دیکھا کہ لوگوں نے ان کی بات پورے دِل سے سن لی تھی ۔

پھر کچھ عرصہ بعد پیپلز پارٹی انتخابات جیت گئی . اس کے بعد پی این اے ”ڈالر” تحریک چلی، ملکی نظام تہس نہس ہو گیا اور فوج نے جمہور کو یرغمال بنا لیا۔ عوام کے جملہ حقوق عضب کر لیے گئے اور مونچھوں والے ایک وردی پوش کے منہ سے نکلنے والے الفاظ 73ء کے آئین کی جگہ لیتے دیکھے گئے۔ مخالفین سب کچھ کر گزرے لیکن بھٹو قابو نہ آیا۔ بھٹو سے نجات کا آخری حربہ اب موت تھی . . . لیکن موت بھی بھٹو کو نہ مار سکی۔ وہ آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور آمروں کا کوئی نام لیوا نہ ملے گا۔

4 اپریل 1979ءکا وہ منحوس دن مجھے نہیں‌بھولا۔ میں میٹرک کا امتحان دے کر اپنی دادی کے ہاں جھنگ چھٹیاں گزارنے گیا تھا۔ 4 اپریل کو میرے والد اور والدہ مجھے لے کر واپس لاہور آ رہے تھے۔ میں نے اپنے والد کو سارے راستے اداس اور خاموش دیکھا۔ صبح 11 بجے فیصل آباد کے لاری اڈے پر ایک اخبار فروش یہ صدا لگاتا اخبار فروخت کر رہا تھا ”بھٹو کو پھانسی دے دی گئی“ اس کی یہ آواز میرے سماعت پر بجلی بن کر برسی اور میں نے تڑپ کر اپنے والد کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر آنسووں ی لڑی جاری تھی ۔

مجھے یاد ہے انہوں نے ہاتھ سے آنسو صاف کرکے مجھے مخاطب ہو کر کہا تھا ”آج سے پاکستان کی بدقسمتی شروع ہو گئی ہے” میں نے چار آنے کا اخبار خریدا. پورا اخبار سفید صفحے پر مشتمل تھا۔ ایک بھی خبر نہ تھی۔ صرف بھٹو صاحب کی تصویر تھی۔ اس روز جیسے شہر کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ لوگوں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے ، ہر طرف ایک عجیب غمناک قسم کی خاموشی کا راج تھا۔ ایسے خوف کا سماں تھا جیسے کوئی خفیہ آنکھ سب کو دیکھ رہی ہو۔ لوگوں کے بجھے چہروں پر سوال دکھائی دیتے تھے لیکن کوئی کسی سے پوچھتا نہیں تھا۔ ہم لوگ بس میں سوار ہوئے تو میں اپنے والد کو بار بار آنسو بہاتے دیکھ رہا تھا۔ میری والدہ خاموش تھیں، شاید انہیں سیاسی معاملات کا زیادہ علم نہ تھا لیکن وہ صرف یہ کہتی سنی گئیں: ”جا ضیاء تیرا خانہ خراب ہووے“

بس کی کھڑکی سے بار جھانکتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ اسلامی کانفرنس کے موقعہ پر اس عظیم لیڈر نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ 44 ممالک کے سربراہان کا خود استقبال کرتا رہا اور ایک میز پر عالم اسلام کو بٹھا کر ایک بڑے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے نکلا لیکن وقت کا یہ عظیم لیڈر سفید ہاتھی کے ظلم کا شکارہوگیا.

میرے گھر میں آج بھی بھٹو کی وہ تصویر آویزاں ہے جو میرے والد نے انہی دنوں کہیں سے مہنگے داموں خریدی تھی۔اب اس تصویر کو 38 برس گزر گئے ، سوائے اس کے ساتھ ایک اور تصویر کے اضافے کے کوئی تبدیلی نہیں‌آئی . وہ دوسری تصویر بی بی بینظیر رانی شہید کی تصویر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے