جنرل کیانی،جنرل راحیل اور پی ٹی آئی

بہادر وہ ہوتا ہے ،جو طاقتور کے ساتھ اس دور میں ٹکر لے سکے کہ جب اس کی طاقت کا طوطی بول رہا ہو ۔ گائوں کے چوہدری اور علاقے کے ایس ایچ او سے مک مکا کرکے چھوٹے موٹے چوہدریوں پر رعب جمانا اور عوام پر اپنی مک مکائی چوہدراہٹ کا رعب جمانا، بہادری نہیں بلکہ بزدلی اور چاپلوسی ہی کی ایک قسم ہے ۔ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان میں اصل چوہدری کون ہے جبکہ بعض علاقوں میں بعض اوقات یہ حیثیت عسکریت پسندوں اور طالبان کو حاصل ہوتی ہے ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (جو چوری میں تو کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن بہر حال گائوں کے اصل چوہدری نہیں) کے خلاف نعرہ زن ہوکر بہادری کا دستار اپنے سر پر سجانے والے عمران خان صاحب یا ان کے نعیم الحق جیسے خاص بندوں نے اگر کبھی گائوں کے ان اصل چوہدریوں کو ان کے عروج کے وقت میں للکارا ہو تو بتادیا جائے۔ جنرل مشرف کے سامنے بہادری دکھانے کا اصل وقت ان کے اقتدار کے ابتدائی دو سال تھے کہ جب وہ سیاسی جرنیل نہیں بنے تھے ۔ تب انہوں نے اقتدار پر ان کے قبضے کو خوش آمدید کہا ۔ جمائما خان کو ساتھ لے کر ان سے خفیہ ملاقاتیں کرتے اور جنر ل صاحب! الیکٹبلز دلواکر وزیراعظم بنادیںکی التجائیں کرتے رہے۔ اس حد تک خوشامد کرتے رہے کہ جعلی ریفرنڈم میں شرمناک حد تک ان کی حمایت کی اور اس تاریخی دھاندلی پر بھی خاموش رہے لیکن پھر جب پرویز مشرف سیاسی ہوگئے تو وہ ان کی مخالفت کے چیمپئن بن گئے ۔ گزشتہ دس سالوں میں پاکستان کے اندر طالبان کے سب سے بڑے وکیل تھے ۔ افغان طالبان کی تو مدح سرائی کرتے رہے ۔ پاکستانی طالبان کو پشاور میں دفتر تک کی پیشکش کی ۔

پختون قوم عسکریت پسندوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ڈبل گیم سے تنگ تھی لیکن وہ ان دونوں کو چھوڑ کر ڈرون کے خلاف مہم چلاتے رہے ، حالانکہ اب ہر کسی پر واضح ہوگیا کہ ڈرون کے خلاف وہ مہم بھی طالبان کا مطالبہ اور گائوں کے اصل چوہدری کے اسکرپٹ کا حصہ تھا۔جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طاقت کا طوطی بولنے لگا تو ان کی مدح سرائی کا آغاز ہوگیا۔ ان کے چھ سالہ دور میں کوئی ایک بیان نہیں دکھایا جاسکتا کہ جو ان لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف دیا گیا ہو۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد جب ہم جیسے لوگ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی پر تنقید کررہے تھے تو خان صاحب اس حوالے سے ان کے بیانیے کے وکیل بن گئے ۔ میمو گیٹ کے معاملے پر بھی وہ میاں نوازشریف کی طرح ان کے ہمنوا بن گئے ۔ ڈرو ن حملوں کے معاملے پر وہ اور ان کے ترجمان اسی خاکے میں رنگ بھرتے رہے جو جنرل کیانی صاحب کی ٹیم کے ایک اہم رکن نے تیار کیا تھا۔ چنانچہ اس خدمت کے بدلے میں پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کا فیصلہ ہوا ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہی دور میں الیکٹبلز (Electables) کو جوق درجوق ان کی پارٹی میں شامل کروایا گیا۔

میں ذاتی معلومات کی بنیاد پر بقائمی ہوش و حواس کہتا ہوں کہ جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر وغیرہ شامل نہیں ہوئے بلکہ شامل کروائے گئے ۔ الحمد للہ جنرل کیانی زندہ ہیں اور میں نے اس وقت ان کے سامنے اس معاملے پر احتجاج کیا تھا لیکن تب وہ اس معاملے میں اپنے کردار کی تردید کررہے تھے ۔لیکن بہر حال ہر کوئی جانتا ہے کہ اسی دور میں میڈیا کو پی ٹی آئی کو اٹھانے کی ہدایات ملیں۔ اسی دور میں عمران خان صاحب کے فرینڈلی انٹرویوز کا آغاز ہوا۔ اسی دور میں انہیں میڈیا میں قوم کے سامنے مسیحا کے طو رپر پیش کیا جانے لگا اور اسی ہی دور میں لاہور، پنڈی اور کراچی میں وہ تاریخی جلسے کرائے گئے کہ جن کے مالی انتظامات میں حصہ ڈالنے والوں کے نام سامنے آگئے تو پاکستانی دنگ رہ جائیں گے۔ اسی جنرل کیانی کے آخری دور میں انتخابات ہوئے ۔

انتخابات الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں نے کرانے تھے اور ان کا انتخاب جنرل کیانی نے نہیں بلکہ آصف علی زرداری نے کیا تھاجس پر عمران خان صاحب نے بھی صاد کیا تھا۔لیکن پنجاب کے نتائج خان صاحب کے ا س خواب کے برعکس آئے جو انہیں ان کی پارٹی میں نئے شامل ہونے والوں نے یا پھر ان لوگوں نے دکھائے تھے جو ان کی پارٹی میں لوگوں کو شامل کرارہے تھے چنانچہ انہیں کے پی میں دھاندلی نظر آئی، فاٹا میں ، بلوچستان میں اور نہ سندھ میں ۔ نظر آئی تو صرف پنجاب میں ۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انتخابات کے وقت اگر جنرل کیانی آرمی چیف تھے تو جنرل ظہیرالاسلام ڈی جی آئی ایس آئی تھے ۔ ان کے ہوتے ہوئے فوجی ادارے کیوں کر نوازشریف کے حق میں دھاندلی کرواسکتے تھے ۔ پھر اس وقت جنرل طارق خان منگلا کے کورکمانڈر تھے ۔ میں جنرل طارق خان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔ نوازشریف کے بارے میں ان کے ذاتی خیالات تو اتنے سخت تھے کہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ دھرنے کے پیچھے ان کی سوچ کارفرماتھی ، حالانکہ یہ تاثر بھی غلط ہے ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے جنرل کیانی پر الزام کے بعد جنرل طارق خان نے ایک پوسٹ کے ذریعے اپنی اور جنرل کیانی کی پوزیشن نہ صرف واضح کی بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ اس بیہودہ الزام سے قبل ان کے دل میں اگر کسی جماعت کی تھوڑی بہت قدر تھی تو وہ یہی پی ٹی آئی تھی جو اب نہیں رہی۔ لیکن وہ عمران خان ہی کیا کہ جو اپنے محسن کے گلے نہ پڑجائے اور وہ پی ٹی آئی ہی کیا جو مشکل وقت میں کسی پر حملہ آور نہ ہو۔ چنانچہ مشکل میں دیکھ کر پی ٹی آئی جنرل کیانی پر حملہ آور ہوئی۔ جنرل راحیل شریف کا وقت جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لئے بڑا مشکل وقت تھا۔ میاں صاحب نے روایتی چالبازی سے ان دونوں کے مابین ایسی غلط فہمیاں پیدا کی تھیں کہ جب بھائیوں کی آڑ میں ان کی کردارکشی ہورہی تھی تو ادارے نے ان کا اس طرح دفاع نہیں کیا جس طرح کہ وہ اپنے سابقہ چیفس کا کرتا ہے ۔

جنرل پرویز مشرف کو بچانے کے لئے تو دھرنے تک کروائے گئے لیکن جنرل کیانی کے حق میں ایک ٹویٹ بھی نہیں آیا۔ چنانچہ جب عدالتی کمیشن نے نجم سیٹھی، جیو اور افتخار چوہدری وغیرہ پر دھاندلی کے حوالے سے الزامات کو لغو قرار دے دیا تو مشکل میں پھنسا دیکھ کر عمران خان نے توپوں کا رخ جنرل کیانی کی طرف موڑدیا۔ نجی محفلوں میں اور میڈیا کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو میں وہ یہ باور کراتے رہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب جنرل کیانی نے پورا نہیں ہونے دیا۔ کبھی وہ ایم آئی کے ایک بریگیڈیئر کا ذکر کرتے اور کبھی کوئی اور دلیل تراشتے لیکن گزشتہ روز بلی تھیلے سے یوں باہر آئی کہ ایک فرضی اور مزاحیہ مضمون کو بنیاد بنا کر عمران خان کے ترجمان اور خاص کارندے نعیم الحق نے ارشاد فرمایا کہ ان کو اور ان کی جماعت کو تو پہلے سے یقین تھا کہ ان کے خلاف دھاندلی جنرل کیانی، سعودی عرب اور امریکہ نے مل کر کی ہے ۔ پھر انہوںنے روایتی چوہدراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت متکبرانہ انداز میں جنرل کیانی سے وضاحت بھی طلب کی لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ یہ جنرل راحیل شریف کا نہیں جنرل قمر باجوہ کا دور ہے جس میں ہر سابق آرمی چیف کو یکساں نظروں سے دیکھاجاتا ہے ۔ چنانچہ رات کوجواب مل گیا اور نتیجتاً صبح نعیم الحق اسی جیو ٹی وی پر توبہ استغفار کرتے اور اپنا رات کا تھوکا چاٹتے ہوئے نظر آئے،جس پر انہوں نے جنرل کیانی پر الزام لگایا تھا ۔

ان کے لیڈر اور خود ان کو پتہ چل گیا کہ جنرل کیانی کے معاملے میں تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آگئی ہے ۔جنرل کیانی کو تو معافی مل گئی لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب جنرل راحیل شریف کی باری ہے ۔ ان کے دور میں بھی دھرنوں اور لاک ڈائون کی صورت میں پی ٹی آئی کی پتنگ بہت اڑتی رہی ۔ جنرل راحیل بھی بالواسطہ عمران خان کے محسنوںمیں شمار ہوتے ہیں اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ خان صاحب اپنے محسنوں کو کبھی معاف نہیں کرتے ۔ مجھے ڈر ہے کہ جنرل عمر کے بیٹے زبیر عمر کے بعد اب جنرل راحیل شریف پر اگلا حملہ پی ٹی آئی کی طرف سے ہوگا ۔ شاید ابھی نعیم الحق اور افتخار درانی جیسے عالی دماغ گہرے غور وخوض میں غرق ہیں ۔ دن رات محنت کرکے وہ الزام تراش رہے ہیںاور تیار ہوتے ہی وہ الزام لگا دیا جائے گا۔ اور کچھ نہ ملا تو دھرنوں کی ناکامی کا الزام تو آسانی کے ساتھ ان کے سر تھوپا جاسکتا ہے ، اس لئے ان کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے ۔ اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہوتی تو اسی طرح کی وضاحت یا معذرت نجم سیٹھی اورافتخار چوہدری کے معاملے میں بھی کی جاتی یا پھر کم از کم ان خواتین اینکرز اور رپورٹرز سے معذرت کی جاتی جن کے ساتھ پی ٹی آئی کے جلسوں میں بدتمیزی کی گئی ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ تبدیلی آگئی ہے۔ اب جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو ، عزت صرف اسکی کی جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے