مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کا کام ہے ،اسحاق ڈار

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مردم و خانہ شماری کے بعدانتخابی حلقہ بندیاں کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے ،میں اس بارے میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔

مردم شماری کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر اسلام آباد میں سیکریٹری شماریات ڈاکٹر شجاعت علی اور چیف شماریات آصف باجوہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے مردم و خانہ شماری پر اقوام متحدہ کی طرف سے فوج کو حصہ بنانے کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کی شمولیت کے بغیر صوبوں کو نتائج قابل قبول نہیں تھے۔

اس سے پہلے خانہ شماری کے بعد یہ کام روکنا پڑا تھا کیونکہ اس پر ملک کی اکا ئیوں نے اعتراضات اٹھائے تھے۔انہوں نے مردم شماری کے کام میں تاخیر کی وجہ سیکیورٹی صورتحال کے باعث فوجی جوانوں کو دستیاب نہ ہونا بتائی۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے پارلیمنٹرینز کے کہنے پر ان علاقوں میں مردم شماری کا کام دوسرے مرحلے میں کیا جائے گااورہر شخص کو خواہ وہ کیمپوں میں ہووہ ہر صورت شمارکیاجائے گا۔

انہوں نے کہا فاٹا اور وزیرستان میں مردم شماری دوسرے مرحلے میں ہو گی،انہوں نے مردم شماری پر وزیر اعلیٰ سندھ کے اعتراضات کو غیر قانونی قرار دیا،ان کا کہنا تھا کہ وہ جو انہوں نے شفافیت کی بات کی تھی وہ قانون کے مطابق نہیں تھی اور وہ قانون ان کی اپنی حکومت نے بنایا تھا۔اس قانون کے تحت duplicate فارم نہیں ہو سکتا،وہ فارم کسی کو نہیں دیا جا سکتا،میراخیال ہے یہ بات ان کو سمجھ آ گئی ہے۔

چیف شماریات آصف باجوہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کیچ اور آواران میں مردم شماری کے پہلے مرحلے میں پانچ دن کی توسیع ان علاقوں کا رقبہ بہت زیادہ وسیع ہونے کی وجہ سے کرنا پڑی۔انہوں نے بتایا کہ مردم شماری کے کام پر کل 18ارب50کروڑ روپے لاگت آئے گی۔

جس میں سے چھ ارب سول اسٹاف پر، چھ ارب فوجی اسٹاف پر جبکہ چھ ارب پچاس کروڑ ٹرانسپورٹ پر خرچ کئے جائیں گے۔دوسرے مرحلے میں دو لاکھ تک فوجی جوان مردم شماری میں حصہ لیں گے جس میں سے 44ہزار مردم شماری اور باقی سیکورٹی کی ذمہ داریا ں ادا کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے مرحلے میں سات افراد خود کش حملے اور ایک ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوا جبکہ دو کو اغواء کیا گیا جو ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکےہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے