جنوبی کشمیر کے دہشت ناک حالات

قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ 2016ء کے عوامی احتجاج سے قبل بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ ترین فوجی آفیسرجنرل ڈوانے ببانگ دہل یہ بات کہی تھی کہ جنوبی کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور یہاں ہماری حالت بطخوں کے مانند ہو چکی ہے ۔عوام کھل کر عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ ان حساس علاقوں تک احتجاج کرنے پہنچ جاتے ہیں جہاں عسکری نوجوانوں اور فوج کے بیچ براہِ راست جنگ چل رہی ہوتی ہے۔ المیہ یہ کہ بھارت کے حکمران مسئلہ حل کرنے میں بعض عیاں وجوہات کی بنا پرٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں ۔ جن میں اہم ترین وجہ اس کی نااہلی دوم دلی میں عرصہ دراز سے براجمان وہ بیروکریسی ہے جنہیں مسئلہ کشمیر لٹکائے رکھنے سے بہت ساری مرادیں پوری ہوتی ہیں اس لئے کہ مسئلہ کشمیر کا زندہ رہنا بہت سارے لوگوں کے لئے ’’سونے کے انڈے دینے والے مرغی‘‘کے شکل اختیار کر چکا ہے۔

مسئلہ کشمیر 1947ء کا ناسور ہے ۔ایک آزاد ریاست کے نااہل حاکم مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال کر ’’بھارت ماتا‘‘کی کی روح توخوش کردی مگر یہ کس سے معلوم تھا کہ ’’خود غرضی ‘‘پر مبنی یہ سودا بھارت کے لئے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔تب سے لیکر آج تک بھارت نے بھرپور قوت کے ساتھ کشمیریوں کو دبانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔یہاں تک کہ معاملہ 1987ء کے الیکشنوں تک پہنچ گیا کہ ایک دھاندلی نے کشمیر کی حالات کو ایک اجنبی رُخ پر ڈالدیا ۔نوجوانوں نے بندوق کا راستہ اختیار کر لیا اور ہر سو انہی کا راج قائم ہوایہاں تک کہ 1996ء میں بھارت نے تمام ترروایتی اور غیر روایتی طریقے تک اختیار کرتے ہو ئے ووٹ ڈلوا کر نیشنل کا نفرنس کی حکومت قائم کروالی ۔اسی دور میں’’ اخوان اور ایس، اُو، جی‘‘نے کشمیر کے چپے چپے پر کشمیریوں کا بے تحاشہ خون بہایاحتیٰ کہ واجپائی سرکار نے نیشنل کانفرنس کی مین اسٹریم سیاست میں انفرادیت اور وحدت کو ختم کرنے کا پروگرام تشکیل دیدیا ۔ان کی نظر مرحوم مفتی محمدسعید پر پڑی جو سابق وزیر داخلہ ہونے کے سبب قابل اعتماد ضرور تھے مگر کشمیر یوں کے لئے وہ ایک گمشدہ شخص کی مانند تھااس لئے کہ پورے دس برس تک کشمیر پر ایک آدھ بیان بھی شہ سرخی میں شائع ہونے کے قابل نظر نہیں آیا بلکہ بعض دانشور یہاں تک کہتے ہوئے سنے گئے کہ لبریشن فرنٹ کے ہاتھوں ’’ربیعہ سعید‘‘کے اغوا اور چند نوجوانوں کی اس کے بدلے میں رہائی مفتی سعید کے لئے ایک گہرے گھاؤ کے مانند تھا جس کا بعد میں کھل کر انتقام لیا گیا ۔اسی بیچ ان کی بیٹی اور آج کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سامنے آئی اور اس نے اپنی کہانی ایک دوسرے انداز میں شروع کرتے ہوئے سب کے دل جیت لئے۔

محبوبہ مفتی ان دنوں ہر اس گھر میں پہنچ کر آنسؤں بہانے لگتی تھی جن کا لاڈلہ فوج یا پولیس کے ہاتھوں قتل ہوجاتا تھا اورکھل کر یہ تک کہتی تھی کہ ’’ایک ملی ٹینٹ‘‘کا بدلہ اس کے گھر والوں سے کیوں لیا جاتا ہے ؟محبوبہ جی نے بہت سارے ایسے نوجوانوں کو رہائی دلائی جوان دنوں فوج یا پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے تھے ۔اخوان،فوج اور ایس او جی کی زیادتیوں پر جم کر بولنا اس کی شناخت بن چکی تھی۔ یہاں تک کہ 2002ء کے الیکشن بہت قریب آنے لگے تو مفتی سعید اسی ہمدردی بٹورنے والی بیٹی کی معیت میں چھاجانے لگے اور تحریکی افراد کے گھروں میں جاکر تعزیت اور خبر گیری میں بھی شدت آنے لگی ۔اسی بیچ جنوبی کشمیر میں افواہوں کا بازار گرم ہونے لگا کہ ’’کہتے ہیں‘‘کا لفظ ہر محفل اور مجلس کی زینت بن گیا ۔پروپیگنڈا بازوں نے زمین و آسمان کے قلابے ملاکر پراسرارباتوں کے ہجوم میں نئے نئے افسانے تراشے کہ ’’کہتے ہیں‘‘محبوبہ جی کل فلاں جگہ فلاں فلاں حزب کمانڈر سے ملی‘‘ اس طرح کی خبروں نے شہداء کے گھروں میں جاکر رونے والی محبوبہ مفتی کے لئے ہمدردی پیدا کر دی اور لوگ ان ایام میں اس کے باپ اور اس کی ہندوستان نوازی کو بالکل بھول چکے تھے ۔ مجاہدین کی جانب سے نہ ہی ان ملاقاتوں کی تردید ہوئی نا ہی تائید مگر عوام نے خاموشی کو سچائی پر محمول کرتے ہو ئے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا ۔سابق گورنرِکشمیر جنرل سنہا نے منصب سے سبکدوشی کے بعد کئی مواقع پر ان باتوں کی تائید کی کہ مفتی فیملی کے عساکر کے ساتھ گہرے روابط تھے ۔میراذاتی خیال ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے کہ فوجی مظالم کے بعد جب معاملہ اخوان اور ایس او جی کا کھڑا ہوا تو شاید عسکری نوجوان اور ان کی مقامی قیادت نیشنل کو ہٹاکر کسی ایسی جماعت کو سامنے لانا چاہتے تھے جوفوجی ،اخوانی اور ایس او جی کے مظالم پر روک بھی لگا سکے اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لئے میدان بھی ہموار کر سکے ۔

2002ء کے اسمبلی الیکشن قریب آنے لگے تو 1987ء کے مسلم متحدہ محاذ کے انتخابی نشان’’قلم دوات اور سبز پرچم‘‘نے کریک ڈاؤنوں،چھاپوں،ٹارچر،گرفتاریوں سے خوف زدہ اور فوج،اخوان اور ایس ،او،جی کے مظالم سے تنگ آئے عوام کی بالعموم اور تحریک نواز وں کی بالخصوص ہمدردیوں کو ’’ضدِ نیشنل کانفرنس‘‘میں ’’مفتی سعید کی طرف موڈ دیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نئی نویلی تنظیم انتہائی قلیل وقت میں جنوبی کشمیر کی مین اسٹریم سیاست پر چھا گئی ۔مفتی محمد سعید اپنی بیٹی کو ساتھ لیکر 1989ء سے قبل کے سیاسی جلسوں جلوسوں جیسی صورتحال کو جنم دینے میں کامیاب ہو گئے ۔ ہر جگہ ان کی خوش آمد کی گئی ۔انھوں نے ان دور دراز علاقوں میں بھی کامیاب جلسے منعقد کئے جہاں نیشنل کانفرنس کا جانا کسی خواب سے کم نہیں تھا اس لئے کہ جنوبی کشمیرپر عسکری نوجوانوں کا خاصا اثر ابھی تک موجود تھا ۔ پی ڈی پی کے بالکل برعکس نیشنل کانفرنس کے لئے ’’مجاہدین‘‘نے تمام ترسیاسی راستے مسدود اورمشکل کر دئیے تھے اور اس کی وجہ نیشنل کانفرنس کا وہ انتقام تھا جس کے لئے نیشنل کانفرنس ہمیشہ مشہور رہی ہے ۔ انہوں نے 1996ء کے الیکشن(جو صرف جبر و تشدد سے منعقد ہو سکے) جیتتے ہی تمام تر مخالفین کو زیر کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی حتیٰ کہ جنوبی کشمیر میں اخوانی نیشنل کانفرنسیوں کی سفارش فوج اور پولیس کی طرح قبول کرتے تھے ۔جس کے مطالب جنوبی کشمیر کے باسی خود ہی سمجھ جاتے تھے ۔آزادی پسندوں کے علاوہ جس بے دردی کے ساتھ جماعت اسلامی والوں کو بازاروں میں ایک ایک کر کے نشانہ عبرت بنانے کی کوشش کی گئی وہ ایک الگ روح فرسا داستان ہے ۔یہ تمام تر وحشت و بربریت اس وقت اپنے جوبن پر تھی جب ریاست میں پہلی بار نیشنل کانفرنس برسرِاقتدار آچکی تھی اور عوام اس ظلم سے’’ کسی بھی طرح‘‘ نجات کے خواہش مند تھے ۔ ظلم سے’ نجات کی خواہش‘ ایک اہم عامل کے طور پر ابھری ،جس نے پی،ڈی،پی کو جنوبی کشمیر کی مین اسٹریم سیاست میں غلبہ عطا کردیا۔اس طرح ایک خاص آلودہ فضا میں پی،ڈی،پی سامنے آئی اور مظلوموں کی آواز بن کر قلیل وقت میں چھا گئی ۔

2002ء کے الیکشنوں میں پی،ڈی،پی ایک اہم پارٹی کے طور پرابھر کر سامنے آئی ۔جس میں مظالم سے تنگ آئے عوام کے علاوہ آزادی پسندوں حلقوں کی ہمدردی اہم ترین اسباب شمار کئے جا سکتے ہیں ۔اب وہی مفتی محمد سعید کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن چکے تھے جس کو اپنے حلقہ انتخاب بجبہاڈہ میں بھی پوری طاقت اور زور لگانے کے باوجود بھی مڈل پاس نیشنل کانفرنس امیدوار عبدالغنی ویری کے مقابلے میں کبھی بھی جیت مقدر نہیں بن سکی تھی۔یہیں سے مفتی سعید جیسے منجھے ہو ئے سیاستدان اور دوسروں کو خاطر میں نہ لانے والی بیٹی سے خطرناک سیاسی غلطیوں کا بھی آغاز ہوا ۔ان کی پہلی فاش غلطی یہ تھی کہ جس مظلوم عوام نے انہیں اپنے ووٹ سے اقتدار کی کرسی تک پہنچا دیا وہ ان کی نفسیات کو پھر سمجھنے میں چوک گئے ۔انھوں نے پورے کشمیر میں اپنے پرانے کانگریسی دوستوں کے علاوہ ان ظالم اشخاص( جن کے ہاتھوں چالیس برس تک آزادی اور اسلام پسندکچلے جا چکے تھے)کو پارٹی میں نہ صرف جگہ دیدی بلکہ اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر کے انتہائی قلیل وقت میں آزادی اور اسلام پسند حلقوں کو غلط پیغام دیدیا۔پھر المیہ یہ کہ جن سوشلسٹ نظریات کے لئے مفتی سعید 1990ء سے قبل پہلے پہچانے جاتے تھے کو 2002ء میں کرسی ملتے ہی جاگیر داروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کوپارٹی میں شامل کرتے ہی روند ڈالا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح ایک وقت میں نیشنل کانفرنس کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف ایک منظم سیاسی قوت کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور بعد میں اس کا ہر لیڈر اور کارکن خود جاگیردار بن گیا بالکل یہی طریقہ پی،ڈی،پی نے اپنا کر نیشنل کانفرنس سے اپنے آپ کو ممتاز نہیں کیا ۔
2002ء کے بعد بے شک اخوان ،فوج اور پولیس کا تشدد کم ہوا مگر ’’مجاہدین ‘‘کے حوالے سے میدانی سطح پر کوئی

تبدیلی نہیں آئی ۔نیشنل کانفرنس نے نہ صرف حزب المجاہدین اور مرکزی حکومتی نمائندوں کے بیچ براہِ راست مذاکرات کرانے کے لئے مناسب اقدامات اٹھائے بلکہ فریقین کوتمام تر سہولیات بہم پہنچائی حتیٰ کہ ایک تاریخی جنگ بندی بھی وجود میں آئی اور حزب المجاہدین کے اس مثبت قدم کے جواب میں اس وقت کے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی نے پارلیمنٹ میں خواشگوار ماحول کو تقویت فراہم کر نے کے لئے جنگ بندی کو قبول کر لیا ۔پی،ڈی،پی حکومت آتے ہی حزب المجاہد ین کی یہی مذاکراتی ٹیم سوائے ایک کے سب مارے گئے حتیٰ کہ حزب المجاہدین کے ایک مشہور دانشور اورمعروف قلمکار’’ کمانڈر مسعود‘‘ کو دورانِ حراست زیر تشددقتل کیا گیا۔ ان کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ہی حزب المجاہدین کے انتہائی بااثر کمانڈرانجینئر محمود الزمان ،ڈویژنل کمانڈر قمر الزمان ،ڈویژنل کمانڈر سہیل فیصل اور سینکڑوں ارکین بھی مارے گئے ۔حزب المجاہدین پر ان ہلاکتوں کا اثر جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا مگر مفتی سعید یہ تک بھول چکے تھے کہ ضلع اسلام آباد میں ہی جماعت اسلامی عسکریت سے بہت پہلے سابق ایم ایل اے شہید عبدالرزاق کو باربار بحیثیت امیدوار اپنے ووٹ بنک کے بل بوتے پر فتح سے ہمکنار کرانے میں کامیاب رہتی تھی اور تو اور 1987ء کے مشہور الیکشنوں میں کانگریس کی سرپرستی میں نیشنل کانفرنس کی تمام تر سینہ زوریوں کے باوجود بھی ضلع اسلام آباد کی پانچ نشستوں میں سے تین پرمسلم متحدہ محاذ کے امیدوارغلام نبی سمجھی،محمد سعید شاہ اور عبدالرزاق میر کامیاب ہوئے تھے ۔یہ حکمرانوں کا پرانا مرض ہے کہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی وہ سچائی اور زمینی حقائق کوبھول کر خوابوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

2014ء کے انتخابات میں’ چھا جانے اور اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کا موڈ ‘لیکرپی ،ڈی،پی شامل ہوئی تھی اُس میں کامیابی نہ ملنے کے اسباب پر اگر چہ مفتی محمد سعید نے کافی غور و خوض کیا مگر اندرون پارٹی چند خود غرض عناصر نے سچائی پر پردہ ڈالنے کی از بس کوششیں جاری رکھیں ۔ووٹ بی جے پی کے خلاف حاصل کیا گیامگر افسوس کہ’’ترقی اور فنڈس‘‘کے نام پر ووٹ اور ووٹرکی بے حرمتی کی گئی ۔طول دینے اور ٹال مٹول کے حربوں سے ساٹھ اور ستر کے عشرے میں لوگ بیوقوف بنتے تھے مگر 1990ء کے بعد کشمیری نوجوانوں نے اس روش کو ہی طلاقِ ثلاثہ دے رکھی ہے۔ طوالت کے حربوں سے حکومتی بے چارگی کے تاثر کو قائم کرتے ہو ئے مفتی اینڈ کمپنی بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب تو ہوئی مگر ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ‘‘ کے مترادف نہ مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہوئی نا ہی مفتی سعید کی موت تک ترقیاتی فنڈس کا اجراء ہو پایا یہاں تک کہ کچھ سیاسی پنڈت مفتی سعید کی بیماری کو چانکیائی حربوں کے ذریعے انہیں دق کرکے مارنے کے شرمناک افواہیں پھیلانے سے بھی نہیں چوکے !اس کے بعد پارٹی کے بکھراؤ کے خدشات پر قابو پاتے ہو ئے جب ان کی بیٹی نے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی سنبھالی تو مسئلہ کشمیر کے حل،پاک بھارت مذاکرات،قیدیوں کی رہائی ،جنگ بندی،حریت لیڈران پر قدغنوں کا خاتمہ اورپولیس کی زیادتیوں پر کنٹرول کے برعکس ہر مسئلہ چاہیے وہ سیاسی ہو یا سماجی یا مذہبی ان پر زوردار بیان داغنے کو اولیت دی گئی ۔

حد یہ کہ جو کسر وہ باقی چھوڑتی تھی اس کو پورا کرنے کی قسم نعیم اختر نے کھائی تھی اور دونوں حضرات یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سیاست تو میری گٹھی میں پڑی ہے رہا مذہب تو ہم سے بڑھکر مذہبی کوئی نہیں لہذامفتی سعید کی طرح خاموش رہنے یا عقلمندوں کی طرح کسی سے پوچھنے اور مشورہ کرنے کے برعکس ایسے بے سروپا بیانات دینے شروع کئے گئے کہ درجہ دوم کے عقل مند بھی چکرا گئے کہ یا الٰہی ماجرا کیا ہے ؟اور پھر 2016ء کے چھے مہینوں میں بیان بازیوں سے جلتے الاؤ پرپیٹرول چھڑک کر بپھرے ہوئے نوجوانوں اور حریت لیڈران کی ذاتی اورخاندانی مسائل کو زیر بحث لاکر ایسے بیانات دئے گئے جس نے زخموں پر مرچیں چھڑکنے کا کام انجام دیدیا اور ایک اجتماعی آواز گونج اٹھی کہ اب تو ناقابلِ فراموش سبق دئے بغیر چارہ نہیں اور اس جواب کی پہلی کڑی چھ فیصد بجواب پانچ فیصد آہی چکا ہے ۔

پی ،ڈی،پی نے2010ء کے ایجی ٹیشن میں حکومت پر زیادتیوں کو لیکر ایسا ہنگامہ برپا کر رکھا تھا اور ایسے سخت بیانات جاری کرنے کی ایک روایت قائم کی کہ عمر عبداللہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کس کو کیسے کنٹرول کرے ۔علی محمد ساگر نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر بات کرتے ہو ئے حالات خراب کرنے والے سیکورٹی افسران کو کالی بھیڑیئے تک قرار دیدیا تھا مگر وہ پی،ڈی،پی جس کی بنیاد ہی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے طور پر پڑی تھی حتیٰ کہ اس نے اپنے آغاز میں اپنی اس شناخت کو قائم رکھتے ہو ئے کوئی نرمی نہیں دکھائی مگر پھر ہوا وہی جو نیشنل کے ساتھ ہوا کہ آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے شیخ صاحب سے لیکر عمر عبداللہ تک ہر فرد نے اسی تصور آزادی کو سختی کے ساتھ کچلنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔مقام حیرت یہ ہے کہ اب بھی پی،ڈی،پی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کس طرح کشمیر نا صحیح کم سے کم جنوبی کشمیر میں غم و غصہ ٹھنڈا کرسکے!الٹا یہ لوگ بے سروپا بیانات سے ماحول کو اور خراب کر دیتے ہیں حتیٰ کہ تصدق ابن مفتی سعید یہ حیرت انگیز انکشاف کر کے’’کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ عوام میں اس قدر غم وغصہ موجود ہے‘‘ ثابت کر چکا ہے کہ ان حضرات کے پاس اب کھولی خالی بیان بازی کے لئے بھی مناسب الفاظ نہیں ملتے ہیں حالانکہ یہ سبھی حضرات اسی زمین پر رہنے والے باشندے ہیں کسی دوسرے سیارے پر رہنے والے شہزادے نہیں آخر انہیں کشمیر کے عام انسان کے بالکل برعکس عوامی موڈ پہچاننے میں غلطی کیوں ہوتی ہے ۔

اپریل2017ء کے الیکشنوں نے جہاں ہندوستان اور مین اسٹریم کو آئینہ دکھادیا وہی یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر بھارت حریت قیادت کو الیکشنوں میں قید و بندمیں رکھنے کے بجائے کھلااور آزاد چھوڑ دے تو شایدکشمیر میں الیکشنوں کا حال اسے بھی زیادہ برا نظر آجائے اور الیکشن بائیکاٹ مہم سچ میں بھارت کے لئے ہر بار ریفرنڈم ثابت ہو جائے گا۔جنوبی کشمیر پی ڈی پی کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اورجذبہ آزادی روز بہ روز راسخ ہو تو جا رہا ہے۔نوجوان نسل کا اصرار ہے کہ باربار مرنے صے بہتر ہے ہم یکبارگی مر جائیں اس لئے کہ جب ہم نے اپنے حق کے لئے بندوق اٹھائی تو انھوں نے پرامن جدوجہدکا راگ الاپنا شروع کردیااور اب جب ہم پر امن طور پر سامنے آگئے تو ہم پرپیلٹ چلاکر آنکھیں ہی چھین لی جاتی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ بندوق اور پر امن احتجاج کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرتے ہو ئے ایک ہی چیز قرار دیتے ہیں تو ہمارے پاس پر تشدد راستہ اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتاہے اور اب نوجوان نسل پر تشدد راستوں پر چلنے کی اس لئے عادی ہو چکی ہے کہ حکومت نوجوانوں کی اس آواز کے مسلمہ لیڈر شپ میں سید علی گیلانی جیسے کمزور ،نحیف اور بیماری کے ہجوم میں گرے ہوئے شخص کو جب چھ برس تک نظر بند رکھ سکتی ہے تو اس کی پالیسی نوجوانوں سے متعلق کیسی سخت ہو گی ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے