یہ قلم ہے کھلونا نہیں

یہ گرمی کا مہینہ، حبس زدہ راتیں،، مینار پاکستان لاہور پھر قلم کی دنیا کا سنسان سفر ، صحرا اور صحرا میں سرداب ، جہاں نہ آب ہے اور نہ پڑاو،میرے ہاتھوں میں جناح کیپ ہے اور لبوں پر پیاس کے پہرے، پیاس اتنی ہے کہ اس کے تصورسے ہی دریا کے لب بھی خشک ہو جائیں، خوف اتنا ہے کہ گھوڑوں کی زبانیں تالوں سے چپکی ہیں، دور تک نہ کوئی درخت ہے اور نہ سایہ، خشک زمین ،خون کی چند بوندوں کو ترس رہی ہے۔

حشر کا عالم ہے، لوگ پابرہنہ، سر ہتھیلیوں پہ لئے گزر رہے ہیں، کتنے ہی تو بدن ایسے ہیں کہ جن پر سر ہی نہیں اور لکیر کے اُس طرف میں کھڑا ہوں۔۔۔
لکیر کے اس طرف اِک شہر ہے، جہاں ہر قیمتی شے بکتی ہے، جہاں شیر نہیں بکتے بلکہ اس شہر میں اپنا پیٹ پالنے کے لئے ، شیر اپنے دانت بیچتے ہیں، جہاں سانپ اپنے زہر کو باقی رکھنے کی خاطر اپنے ہی بچوں کو فروخت کر آتے ہیں، جہاں بدن تراشنے کے لئے سر کاٹ دیئے جاتے ہیں، جہاں انسان نہیں خریدے جاتے بلکہ انسانی جسم کے اعضا بکتے ہیں، خصوصاً ہاتھ ، زبان اور آنکھیں۔

وہ ہاتھ کہ جس میں قلم اٹھانے کی طاقت ہو
وہ زبان کہ جس میں چکھنے کی صلاحیت ہو

وہ آنکھیں جو کچھ نہ کچھ دیکھ سکتی ہوں۔۔۔ان کی قیمت کچھ زیادہ ہی لگتی ہے۔

لوگ دوڑ رہے ہیں اس بازار کی طرف اور یہ دوڑ دائرے میں ہے۔ یہ دائرہ مصلحت کا ہے۔ اس دائرے کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔

دائرے کا کوئی افق بھی نہیں، پھر بھی مرغ ِ سحر مجھ سے پہلے بانگِ سحر دیتا ہے اور میں گلدستہ اذاں پہ کھڑے ہوکر صبح کی تھرتھراتی ہوئی لو کے پرچم پر تھوک دیتا ہوں۔ تھوکتا بھی ہوں تو خون آلود۔

اذان دینے کے لئے ایک جرات چاہیے اور میں! میں اس قبیلے کا فرد ہوں! ہاں میں وہ نامرد ہوں کہ جو اپنے شہیدوں کی گمنام قبروں پر چھپ کر فاتحہ پڑھنے کا عادی ہوچکا ہے۔ میں اپنے تاریک کمرے کے گرد ایک دائرہ کھینچ کر، چند اگربتیاں جلاتا ہوں اور چند ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوں اور پھر سہم جاتا ہوں کہ اگربتیوں کا دھواں کہیں دروازے سے باہر نہ چلا جائے۔

میرے کارواں میں سب حُر ہیں، سب جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، لیکن سب میرے سمیت لکیر کی دوسری جانب کھڑے ہیں یعنی ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے۔۔۔

آج کی شب اس شہر میں خوف اتنا ہے کہ درودیوار پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں اور کوئی ایک حُر بھی ڈر کے مارے اونچی سانس نہیں لیتا۔۔۔ گھوڑوں کے نتھنے سی دیئے گئے ہیں اور ٹانگیں باندھ دی گئی ہیں ۔۔۔ لوگوں میں اتحاد ہوگیا ہے خاموش رہنے پر، بھیک مانگ کر کھانے پر، گدائی کرکے مسجدیں بنانے پر، ظالموں کے سامنے گڑگڑانے پر اور ہر روز نت نئے دائرے بنانے پر۔۔۔

اب یہاں کوئی فساد نہیں، یہاں کوئی جھگڑا نہیں، اس شہر والوں نے ایکا کر لیا ہے ،اپنے اپنے دائرے میں دوڑنے پر۔۔۔ اب میرے قلم سے دائرے ٹپکتے ہیں، اب میرے نزدیک مسائل کا حل ۔۔۔ دائرے ہیں۔۔۔

اب میں دائرے سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتا۔۔۔ دو قدم تو بڑی بات ہے۔۔۔

دائرے میں دوڑ لگی ہوئی ہے، انسان گردش کر رہے ہیں اور امیرِ شہر نے شہر کے سب سے بڑے دروازے پر یہ کتبہ نصب کروا دیا ہے “یہ قلمکار لوگوں کا شہر ہے”

یہاں پر مفکربچے ہی جنم لیتے ہیں۔۔۔

لیکن میرا بچہ، دائرے کی طرح، اپنی گول مٹول آنکھیں گھما کر مجھ سے پوچھتا ہے،

میرے بابا۔۔۔ یہ دنیا دائرے کی طرح گول کیوں ہے!؟

میں ہوں کر کے ٹال دیتا ہوں ۔۔۔!

وہ پھر پوچھتا ہے ۔۔۔بابا! یہ سارے لوگ دائرے میں کیوں دوڑ رہے ہیں!؟۔۔۔ میں پھر خاموش رہتا ہوں۔۔۔

میں اپنی میز پر پڑے ہوئے ٹیڑھے میڑھے قلم اٹھا کر اپنے بچے کو دیتا ہوں اور وہ مجھ سے کاغذ بھی مانگتا ہے ، پھر میں بھی اس کے ساتھ کھیلنے لگتا ہوں، جی ہاں !میں بھی کھیلنے لگتا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ قلم کھیلنے کی چیز نہیں، ابھی دنیا میں مجھ جیسے کتنے ہی ایسے نابالغ ہیں جو سارا دن قلم و کاغذکے ساتھ کھیلتے ہیں، جنہیں یہ احساس ہی نہیں کہ اگر یہ اگرقلم سیدھا ہوجائے تو سارا عالم سیدھا ہو جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے