بازی گر

لال کڑتی راولپنڈی کینٹ کا ایک پرانا محلہ ہے‘ آج سے چالیس سال پہلے لال کڑتی میں ایک پان فروش ہوتا تھا‘ وہ اپنے فن کا استاد تھا‘ وہ بڑی محبت‘ عقیدت اور مہارت کے ساتھ پان بناتا تھا ‘وہ صرف قدردانوں کو پان بیچتا تھا‘ وہ کسی کو پان باندھ کر نہیں دیتا تھا‘ خریدار چل کر دکان پر آتا تھا‘ وہ پان بناتا تھا اور اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں رکھتا تھا‘ وہ بازار سے مہنگا بھی تھا۔

مارکیٹ میں اس زمانے میں پان پچاس پیسے میں ملتا تھا لیکن وہ پان کے پانچ روپے وصول کرتا تھامگراس کے باوجود لوگ دور دور سے پان کھانے کے لیے اس کے پاس آتے تھے‘ اس کے سب سے مہنگے پان کا نام ’’شام اودھ‘‘ تھا‘ 1970ء کی دہائی میں ضیاء محی الدین صاحب پاکستان ٹیلی ویژن پر شو کرتے تھے‘ یہ شو اس وقت کا مشہور ترین پروگرام تھا‘ ضیا ء محی الدین نے اپنے کسی شو میں اس کا ذکر کر دیا‘ وہ پان فروش ایک رات میں مشہور ہو گیا اور ملک بھر کے ادیب‘ شاعر اور صاحبان علم اس کی دکان پر آنے لگے۔

اس زمانے میں کراچی میں سید محمد علی رضوی نام کے ایک عالم رہتے تھے‘ لوگ انھیں محمد میاں کہتے تھے‘ رضوی صاحب پان کے رسیا بھی تھے اور ’’پان فہم‘‘ بھی‘ وہ ایک بار راولپنڈی تشریف لائے‘ لال کڑتی گئے اور ’’شام اودھ‘‘ کا آرڈر دے دیا‘ پان فروش نے بڑی محبت کے ساتھ پان لگایا اور وہ پان ان کے منہ میں رکھ دیا‘ محمد میاں نے پان چبایا اور چند سیکنڈ میں تھوک دیا‘ پان فروش یہ گستاخی دیکھ کر لال پیلا ہو گیا‘ محمد میاں جانے لگے تو وہ دوڑ کر باہر آیا اور لجاجت کے ساتھ کہنے لگا ’’حضور میرے پان میں کیا خرابی تھی۔

آپ نے یہ کیوں تھوک دیا‘‘ رضوی صاحب نے جواب دیا ’’بھائی ٹھیک تھا بس ہمیں پسند نہیں آیا‘‘ دکاندار سامنے کھڑا ہو گیا اور وجہ کے لیے اصرار کرنے لگا‘ اصرار جب حد سے بڑھ گیا تو محمد میاں بولے ’’نام شام اودھ اور الائچی ثابت‘‘ ۔یہ واقعہ اردو ادب کے عظیم لکھاری شکیل عادل زادہ صاحب نے سنایا‘ وہ جب خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا ’’جناب تھوڑی سی تشریح فرما دیں‘‘ فرمایا‘ الائچی کا چھلکا کڑوا ہوتا ہے‘ ہم لوگ پان میں ثابت الائچی نہیں ڈالتے‘ ہم اس کے دانے ڈالتے ہیں‘ پان فروش نے ثابت الائچی ڈال دی تھی اور محمد میاں ذائقے کے اتنے حساس تھے کہ وہ چند سیکنڈ میں پان کا نقص جان گئے۔

شکیل عادل زادہ لفظوں کے ساحر ہیں‘ عربی‘ فارسی اور اردو تین زبانوں کے ماہر ہیں‘ یہ ہندوستان کے عظیم شہر مراد آباد میں پیدا ہوئے‘ مراد آباد شاہ جہان کے صاحبزادے شہزادہ مراد بخش نے آباد کیا تھا اور یہ تین حوالوں سے برصغیر میں مشہور تھا‘ پیتل کے برتن‘ جگر مراد آبادی اور مراد آبادی تمباکو۔ یہ شہر سارے ہندوستان کو پیتل کے برتن سپلائی کرتا تھا‘ والد عادل ادیب شاعر بھی تھے اور صحافی بھی‘ والد نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ’’مسافر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔

رئیس امروہوی صاحب رسالے کے ایڈیٹر تھے‘ جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں کاغذ کی قلت ہو گئی۔ ’’مسافر‘‘ بند ہو گیا ‘ والد کو دق (ٹی بی) ہو گئی‘ شکیل صاحب نے اس ماحول میں پرورش پائی‘ امروہہ مرادآباد کی تحصیل تھی‘ یہ شہرمراد آباد سے 20 میل کے فاصلے پر تھا‘ شکیل صاحب کے رئیس امروہوی کے ساتھ خاندانی مراسم تھے‘ رئیس صاحب کا پورا خاندان عالم‘ فاضل اور دانش ور تھا‘ جون ایلیا‘ ان کے چھوٹے بھائی اور ہندوستان کے مشہور فلم ساز کمال امروہی کزن تھے‘ شکیل صاحب ان لوگوں کے درمیان پل کر جوان ہوئے‘ رئیس صاحب کا خاندان قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گیا‘ شکیل صاحب 1957ء میں کراچی آئے اور رئیس صاحب کے مہمان بن گئے۔

یہ مہمان داری 16 سال جاری رہی‘ رئیس صاحب نے انھیں16 سال اپنے گھر میں رکھا‘ وہ ان دنوں روزنامہ شیراز کے نام سے اخبار نکالتے تھے‘ شکیل عادل زادہ اس اخبار سے وابستہ ہو گئے‘ رئیس صاحب نے جون ایلیا کی معاشی بحالی کے لیے ’’انشا‘‘ کے نام سے ادبی رسالہ نکالا‘ شکیل صاحب انشا میں چلے گئے‘ انشا بعد ازاں عالمی ڈائجسٹ بن گیا اور یوں یہ ڈائجسٹوں کی دنیا میں آ گئے‘ شکیل صاحب نے 1975ء میں ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے اپنا ڈائجسٹ شروع کیا اور کمال کر دیا‘ یہ ڈائجسٹ محض ایک ڈائجسٹ نہیں تھا‘ یہ پورا ادب تھا۔

1970ء کی دہائی سے لے کر 2000ء تک ملک کی تین نسلیں اس ڈائجسٹ کی گود میں پل کر جوان ہوئیں‘ سب رنگ کی سرکولیشن ایک لاکھ 57 ہزار کاپیوں تک گئی اور یہ ریکارڈ آج تک کوئی اخبار‘ کوئی جریدہ اور کوئی ڈائجسٹ نہیں توڑ سکا‘ شکیل عادل زادہ صاحب نے سب رنگ میں غلام روحیں‘ اقابلا اور امر بیل جیسے سلسلے شروع کیے‘ یہ کہانیوں کے قسط وار سلسلے تھے‘ لاکھوں لوگ ان سلسلوں کی لت میں مبتلا تھے لیکن ان کا اصل کمال ’’بازی گر‘‘ تھا‘ شکیل صاحب نے 1985ء میں یہ سلسلہ شروع کیا اور پورے پاکستان کے ہر پڑھے لکھے شخص کو ’’بازی گر‘‘ کا عادی بنا دیا‘ یہ ایک طویل نامکمل کہانی ہے‘
شکیل صاحب یہ کہانی مسلسل 25 سال لکھتے رہے۔

میری نسل کے زیادہ تر لوگ بازی گر کے ہیرو بابر زمان اور اس کے ساتھی کرداروں کے ساتھ چلتے ہوئے جوان ہوئے ہیں‘ ہم ہیروئن کی طرح اس کہانی کی عادی تھے لیکن پھر شکیل صاحب نے اچانک بازی گر لکھنا بند کر دی جس کے بعد لاکھوں پڑھنے والوں کی وہ حالت ہو گئی جو ہیروئن کے عادی لوگوں کی نشے کی عدم دستیابی کے بعد ہوتی ہے‘ ہماری نسل آج بھی ’’بازی گر‘‘ کی اگلی قسط کا انتظار کر رہی ہے لیکن سب رنگ بند ہو چکا ہے اور شکیل صاحب لکھنے لکھانے سے تائب ہو چکے ہیں۔

میں شکیل عادل زادہ کا مرید ہوں‘ میں 1999ء میں پہلی بار ان کا ہاتھ چومنے کے لیے کراچی گیا‘ وہ ملاقات راہ ورسم کی بنیاد بنی اور یوں ایک سلسلہ نیاز شروع ہو گیا‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی بھی شکیل صاحب کے نیاز مند ہیں‘ شکیل صاحب ان کی دعوت پر اپریل کے دوسرے ہفتے اسلام آباد تشریف لائے‘یہ یونیورسٹی کے میلے میں مدعو تھے‘ ڈاکٹر صاحب اور شکیل صاحب نے مہربانی فرمائی‘ یہ لنچ کے لیے میرے گھر تشریف لائے‘ میں نے شکیل صاحب سے درخواست کی اور یہ میرے ساتھ مری جانے کے لیے راضی ہو گئے۔

شکیل صاحب اور ڈاکٹر شاہد صدیقی 14 اپریل کو ایک دن کے لیے مری میں میرے مہمان بنے‘ وہ دن میری حیات کا یاد گار ترین دن تھا‘میں چوبیس گھنٹے
اپنے وقت کے عظیم ادیب کی صحبت سے سیراب ہوتا رہا‘ شکیل صاحب زندگی کی کتاب کا ایک ایک ورق پلٹتے رہے اور ہم مرید ان کے سفر زیست کے قدم کے ساتھ قدم ملاتے چلے گئے‘ شکیل صاحب پوری تہذیب ہیں‘ ایک ایسی تہذیب جس میں کتے کو بھی کتا نہیں کہا جاتا تھا کتا صاحب کہا جاتا تھا‘ جس میں سبزی فروش گاجر‘ مولی‘ کیلا اور کھیرا کاٹ کر فروخت کرتا تھا۔

یہ انھیں ثابت حالت میں اپنی دکان‘ اپنی ریڑھی اور اپنی چھابڑی میں نہیں رکھ سکتا تھا اور اگر کوئی یہ غلطی کر بیٹھتا تھا تو پورا محلہ اسے گنوار اور بدتہذیب سمجھتا تھا‘ جس میں لوگ لڑتے جھگڑتے ہوئے بھی آپ جناب سے باہر نہیں آتے تھے‘ جس میں مائیں دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کو بھی نہیں چوم سکتی تھیں‘ جس میں کتاب‘ شعر اور کھانا تہذیب تھی اور کوئی شخص اس تہذیب سے باہر قدم نہیں رکھتا تھا اور جس میں اونچی آواز‘ غیبت اور ترچھی نظر گالی سمجھی جاتی تھی‘ شکیل عادل زادہ صاحب اس تہذیب کے امین ہیں‘ یہ اونچا بھی بولیں تو کان لگا کر سننا پڑتا ہے‘ چلتی پھرتی لغت بھی ہیں۔

آپ کوئی لفظ بولیں یہ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک اس لفظ کی ساری جنم کنڈلی سامنے رکھ دیں گے‘ یہ پوری زندگی مشاہیر میں رہے‘ یہ رئیس امروہی‘ جون ایلیا‘ جوش ملیح آبادی‘ مشتاق احمد یوسفی اور ذوالفقار علی بخاری جیسے عظیم لکھاریوں‘ دانشوروں اور شاعروں کے ساتھ رہے‘ سخن فہم بھی ہیں اور موسیقی کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتے ہیں چنانچہ یہ بولتے رہے اور ہم صدیوں کے پیاسے سنتے رہے‘ شکیل صاحب نے صبح ناشتے کی میز پر پطرس بخاری کے بھائی ذوالفقار علی بخاری کا ایک واقعہ سنایا۔

فرمانے لگے‘ میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کے ایک پروگرام میں شریک تھا‘ اتفاقاً بخاری صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا‘ میں نے ان سے عرض کیا حضور آج کے دور میں یوسفی صاحب سے بڑا مزاح نویس کوئی نہیں‘ وہ تڑپ کر بولے ’’میاں مزاح نویس نہیں ہوتا‘ مزاح نگار ہوتا ہے‘‘ وہ رکے اور پھر پوچھا ’’کیا تمہاری اماں پڑھی لکھی تھی‘‘ شکیل صاحب نے جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ’’ڈرو اس علم سے جو اکتسابی ہو‘‘ میں اور ڈاکٹر شاہد صدیقی دیر تک اس فقرے کا لطف لیتے رہے۔

میں نے شکیل صاحب سے عرض کیا ’’سر آپ بازی گر مکمل کیوں نہیں کر دیتے‘‘ جواب دیا ’’طبیعت مائل نہیں ہوتی‘‘ میں نے کلپ بورڈ اور قلم ان کے ہاتھ میں دے دیا اور ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ گیا‘ وہ ناں ناں کرتے رہے لیکن میں ضد پر اڑ گیا‘آخر میں یہ مسکرائے اور بازی گر کا آٹھ سال سے رکا ہوا سلسلہ لکھنا شروع کر دیا‘ یہ لکھتے رہے اور میں ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھا رہا۔میں نے ان سے ایک دفعہ لکھوا لیا‘ باقی صفحے یہ کراچی جا کر لکھیں گے۔

مجھے یقین ہے بازیگر کے لاکھوں چاہنے والے اب بابرزمان کی سرگزشت کا آخری حصہ پڑھ پائیں گے‘ شکیل عادل زادہ علیل ہیں‘ ان کے گھٹنوں میں بھی درد کی شکایت ہے‘ عمر بھی 80 سال سے اوپر ہو چکی ہے لیکن یہ اس کے باوجود ذہنی طور پر توانا ہیں‘لہجے کی شگفتگی اور زبان کی چستی قائم دائم ہے‘ یہ چستی اور شگفتگی بابرزمان کی باقی ماندہ کہانی کے لیے کافی ہو گی۔

بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے