ساجن جندال کاظہور اورپاکستانی پرچم میں لپٹی کشمیری میتیں

بھارتی حکمران ان دنوں کشمیر میں جاری کشیدگی کی وجہ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ کشمیر میں نئی طرز کی عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لئے بھارتی حکومت ہر طرح پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے دو دن قبل کشمیر میں فیس بُک، ٹویٹر اور واٹس ایپ سمیت سولہ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر مکمل پابندی کے احکامات نے بھارتی حکومت کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ کشمیر میں عوامی سطح پر متشدد اور زور پکڑتی آزادی کی تحریک دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوچکی ہے۔ پاکستانی میڈیا سمیت بین الاقوامی میڈیا نے کشمیر میں بڑھتی کشیدگی اور معصوم شہری شہادتوں کو نہ صرف اپنے پرائم ٹائم میں جگہ دی ہے بلکہ نیو یارک ٹائمز نے اکیس اپریل کو اپنے ادارئیے میں بھارتی افواج کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی افواج کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آخری حدود پھلانگ چُکی ہے۔

ایسے میں بھارت کی معروف کاروباری شخصیت ساجن جندال کی پاکستان میں موجودگی اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے ساجن جندال کی فُول پروف سیکورٹی میں مہمان نوازی حیران کُن بات تو ہے ہی دوسری طرف عوامی حلقوں نے اس ملاقات کو کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف قرار دیا ہے۔ یاد رہے معروف بھارتی صنعتکار ساجن جندل اور میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کے تعلقات اس سے قبل بھی میڈیا میں زیر بحث رہے ہیں، ساجن جندال کی پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف سے یہ کوئی پہلی ملاقات نہیں بلکہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی دسمبر ۲۰۱۵ میں اچانک افغانستان سے پاکستان وارد ہوئے تھے تو وہ سیدھا لاہور رائونڈ میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ تشریف لے گئے تھے اور ساجن جندال بھارتی وزیراعظم کے نہ صرف ہمراہ تھے بلکہ دونوں وزرائے اعظم کی اس ملاقات کے منصوبے کے پیچھے بھی ساجن جندال کا ہی نام سامنے آیا تھا۔ساجن جندال کے شریف فیملی سے کاروباری تعلقات کی تو پہلے سے بازگشت سنائی دے رہی ہے لیکن پاکستان کے سیاحتی و تفریحی مقام مری میں ساجن جندال اور میاں نواز شریف کی سخت سیکورٹی میں حالیہ ملاقات کے بعد چند سوالات نے ضرور جنم لیا ہے۔

کیا ساجن جندال بھاتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی کی طرف سے دونوں ممالک کے بیچ ہر سطح پر معطل تعلقات کو پھر سے استوار کرنے کی کوئی نوید لائے ہیں؟

کیا بھارتی حکمران کشمیر میں بڑھتی کشیدگی اور عوامی مزاحمت سے پریشان ہوکر میاں نواز شریف سے کسی قسم کی مدد لینا چاہتے ہیں؟

کیا ساجن جندال شریف فیملی سے اپنے کاروباری تعلقات کے سلسلے میں ملنے آئے ہیں؟

کیا وزیراعظم کو پاکستانی پرچم میں لپٹی کشمیریوں کی میتیں نظر نہیں آرہیں؟

کیا وزیراعظم کو سڑکوں پر پتھر اٹھائے وہ کشمیری طالبات نظر نہیں آرہیں جو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے بھارتی افواج کے ساتھ دُوبدُو نہتیں لڑائی لڑ رہی ہیں؟

کیا وزیراعظم کشمیر کے حالیہ واقعات سے باخبر نہیں ؟

جب ساری دنیا کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی پہ سراپا احتجاج ہے کیا وزیراعظم کو بھارتیوں کی دوستی اور مہمان نوازی زیب دیتی ہے؟

بھارتی صنعتکار ساجن جندال کو فُول پروف سیکورٹی فراہم کرکے اور مری جیسے تفریحی مقام پہ تواضع کرکے کشمیریوں کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟

ایسے کئی سوالات ہیں جو اس وقت عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ایک ٹویٹ میں ساجن جندال کی ملاقات کو زیادہ طول نہ دینے کی صلح دیتے ہوئے پیغام دیا کہ ساجن جندال وزیر اعظم کے بہت پرانے دوست ہیں لہذا یہ ملاقات کوئی انہونی بات نہیں۔

لیکن ایک ملک کے وزیر اعظم کا ایسی کسی بھی شخصیت سے ملاقات وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں ہر لحاظ سے معنٰی خیز ہے۔ ایک طرف پاکستان میں پکڑا جانے والا بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کا جاسوس کلبھوشن یادیو جس کو پاکستانی عدالت کی طرف سے سزائے موت کی سزا سنانے کے بعد بھارت ہر سطح کا اقدام اٹھانے کی دھمکی دے رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کشمیر میں ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے کشمیریوں کے جائز حقوق کو سلب کرنا چاہتا ہے اور تو اور تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے انکشافات کے بعد بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے شواہد ملنے کے بعد اتنا کہہ دینے سے بات ختم نہیں ہوتی کہ ساجن جندال وزیراعظم کا بہت پرانا دوست ہے۔

کیا ساجن جندال مودی سرکار کو کشمیر میں درپیش بگڑتےحالات سے ریسکیو کرنے کے لئے آئے ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے ان سب باتوں سے تو پردہ اٹھے گا ہی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد کشمیر میں جاری کشیدگی اور معصوم لوگوں کی شہادتوں پر وزیراعظم پاکستان کوئی لب کُشائی کرتے ہیں یا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے