اک اور دریا کا سامنا تھا

ڈان لیکس کے کمبل سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں جیسا کہ حکومت نے سوچ رکھا ہے۔ قومی سلامتی کے امور سے متعلق من گھڑت خبر کے اثرات پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ پرویز رشید کو گھر بھیجا گیا، طارق فاطمی سے قلمدان واپس لیا گیا ، راؤ تحسین کو فارغ کردیا گیا جبکہ سرل المائڈا اور متعلقہ اخبارکا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کردیا گیا ہے ۔۔ مگر زخم پھر بھی مندمل نہیں ہوئے۔

فوج کی جانب سے آئی ایس پی آرکے میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر اپنے پیغام میں ڈان لیکس سے متعلق حکومتی نوٹیفیکیشن مسترد کردیا ہے اور صاف صاف بتادیا ہے کہ انکوائری رپورٹ نامکمل اور سفارشات کے برعکس ہے۔ پاک فوج کے بیان کے بعد سیاسی میدان میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی ہے۔

عسکری قیادت کی جانب سے ڈان لیکس انکوائری رپورٹ پرایسا سخت ردعمل اور وہ بھی ٹویٹرپر شاید وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کو پسند نہیں آیا تو کراچی میں جھٹ پٹ سے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کرڈالی۔

چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات چیت جمہوریت کیلئے زہرقاتل ہے۔ اس سلسلے میں جب نوٹیفیکیشن جاری ہی نہیں ہوا تو بھونچال کیسا؟ اصل اعلامیہ جاری کیا جانا باقی ہے۔ کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ وزیرداخلہ نے نان ایشو کو ایشو بنا نے کے معاملے پرافسوس کا اظہار کیا توساتھ میں یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ’’کمیٹی کی سفارشات پر من وعن عمل درآمد ہوگا‘‘

چوہدری صاحب نے یہ کہنا گوارا نہیں کیا کہ پوری فلم ریلیز کرنے کے بجائے ٹریلرجاری کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ جب اعلامیہ جاری ہی نہیں کیا گیا تو ملزمان کے خلاف ایکشن کیوں لیا گیا؟ اتنے اہم معاملے پر اتنی غیرسنجیدگی کیوں؟

اب اصل رپورٹ میں کس کس کی بلی چڑھائی جائے گی یہ تو بعد میں پتہ چلے گا لیکن فوج کی جانب سے رپورٹ میں عدم اعتماد نے اپوزیشن جماعتوں کو ن لیگی سرکار کو لتاڑنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جسے انہوں نے سیاسی صدقہ جاریہ سمجھ کر خوب جمہوری ثواب حاصل کیا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تو دوٹوک انتباہی مشورہ دے ڈالا کہ اس سے پہلے کہ سسٹم اورجمہوریت کو مزید نقصان پہنچےوزیراعظم کو عہدے سے الگ ہوجانا چاہئے۔ تحریک انصاف نے بھی ہانک لگائی اور فوج کے موقف کو درست مانتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی سے متعلق متنازعہ خبر دینے والے اصل کرداروں کو سامنے لایا جائے۔

معاملے کی شدت کا اندازہ ہواتو وزیراعظم نے لاہور میں سیاسی بیٹھک لگالی جس میں متنازعہ خبر کی رپورٹ کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اوراس بات پراتفاق کیا گیا کہ پہلے بھی محاذ آرائی کی سیاست سے دور رہے اور آئندہ بھی دور رہیں گے۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا جس سے فوج اور حکومت میں اختلاف پیدا ہوں۔ ڈان لیکس رپورٹ پر فوج کے تحفظات دور کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔

موجودہ سیاسی صورتحال میں یقیناً یہ اچھا قدم ہے کہ خلیج نہ پڑنے دی جائے کیونکہ یہی خلیج جب گہری ہوجاتی ہے تو اسے پاٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ بدگمانی غلط فہمی کو جنم دیتی ہے اور غلط فہمی سے شک کی بنیاد پڑتی ہے اور شکوک و شبہات جب بڑھتے ہیں تو نفرتوں کے سانپ پھنکارنے لگتے ہیں اور اکثرڈسی جمہوریت جاتی ہے۔

پاکستان کا سب سے منظم ادارہ فوج ہے اور فوج اپنی عزت پر کبھی بھی حرف نہیں آنے دیتی۔ ڈان لیکس کا معاملہ پاک فوج کیلئے بہت اہم ہے۔ اسے جلد از جلد حل کرانا ہی ہوشمندی ہے۔ اس سے پہلو تہی کی صورت میں وزیراعظم کیلئے آبیل مجھے مار کا معاملہ ہی ہوسکتا ہے اور ویسے بھی پانامہ کیس کا فیصلہ، بھارتی صنعت کار سجن جندل کی آمد اور اب ڈان لیکس رپورٹ پر عسکری قیادت کےعدم اعتماد نے واضح کردیا ہے کہ میاں صاحب کی مشکلات ابھی کم نہیں ہوئیں ؎

اک اور دریا کا سامنا تھا منیؔر مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراترا تومیں نے دیکھا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے