احسان اللہ احسان اور ملالہ کی دعوت

عصمت اللہ معاویہ جو ایک وقت میں پنجابی طالبان کےسربراہ تھے کی کوششوں سے احسان اللہ احسان نے ہتھیار پھینک کر خود کو پاکستانی اسٹبلیشمنٹ کے حوالے کردیا لیکن زرائع کے مطابق یہ سب مشروط سرنڈر تھا عصمت اللہ معاویہ جنگجو کمانڈر کے نام سے جانے جاتے تھے جنہوں نے سیکورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی معافی کی یقین دہانی کے بعد خود کو جولائی 2014 میں سیکورٹی فورسز کےحوالے کردیا اور اب وہ پشاور میں خفیہ طور پر پرامن زندگی بسرکر رہے ہیں احسان اللہ احسان نے عصمت اللہ معاویہ کی دعوت، معاونت سے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مشروط سرنڈر کیا اور 6فروری کو چمن کے قریب پاک افغان سرحد پر بیوی، بیٹے سمیت خود کو حکام کے حوالے کردیا تاہم جب خبر سائع ہوئی تو ادھر تحریک طالبان جماعت الاحرار کے ترجمان اسد منصور نے یہ دعوی کیا کہہ احسان اللہ احسان کو کچھ ساتھیوں سمیت افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے گرفتار کیاگیا ہے تاہم ان ساتھیوں سے متعلق تفصیل نہیں بتائی گئی۔ لیاقت علی المعروف احسان اللہ احسان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اسی شرط پر احسان اللہ احسان نے سرنڈر کیا ہاں البتہ اطلاعات یہ بھی ہے کہہ احسان اللہ احسان کو طالبان دھارے سے باہر نکال دیاگیا تھا اور موصوف کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا واضح رہے کہہ احسان اللہ احسان پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشتگردانہ حملوں میں ملوث رہا اور پاکستانی صحافی و سماجی شخصیات جو انکے خلاف آواز بلند کرتے ان کو دھمکیاں بھی دیتا رہا جس میں علم کی شمع اور تعلیم و امن کی سفیر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی انہی نے قبول کی تھی اور اس کیساتھ ساتھ آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے اندوہناک حملے سمیت واہگہ بارڈر اور کراچی پولیس کے دابنگ افسر چودھری اسلم (مرحوم) پر ہونے والے حملے سمیت دیگر بےشمار شرانگیزیوں میں بھی ملوث رہا اور علل اعلان دنکے چوٹ پر اپنی وحشیانہ کاروائیاں قبول بھی کرتا رہا تھا یقینن احسان اللہ احسان ریاست پاکستان کا قاتل ہے اس ظالم انسان کو جتنی بھی سزا دی جائے کم ہے؟ لیکن میں اب یہ زہر کا گھونٹ پینے پر مجبور ہوگیا ہوں کیونکہ میں کسی اور پاکستانی کو احسان اللہ احسان جیسا درندہ بنتا نہیں دیکھ سکتا اور ناہی کسی اور درندےکی اس امید کو مایوسی میں تبدیل ہوتا دیکھ سکتا ہوں کہ وہ تو قتل و فساد چھوڑنا چاہتا ہو مگر دیکھائی دینے والی حکومتی سزا کے خوف سے احسان اللہ احسان جیسی ناگزیر وحشیانہ کاروائیاں کرنے پر مجبور ہو؟ آپ تو ایک انسان کے قتل کا کہتے ہیں مجھے تو پاکستان تو کیا دنیاء بھر میں بےگناہ کسی جانور کے قتل پر بھی اتنا ہی افسوس ہوتا ہے جتنا اپنے کسی فرد کی موت پر کیونکہ سب سے پہلے ہم مسلمان ہیں اس کے بعد پاکستانی ہیں آپ تو شائد بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ ان لوگوں کو دہشتگرد کس نے بنایا؟ اور انکے ہاتھ میں بندوق کس نے تھمائی اور پہر کن کن لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے؟ آخر یہ کیوں اتنے بڑے ظالم وحشی بن گئے؟ اگرچہ میں پورا سچ لکھ دوں تو پہر ایک توفان بدتمیز میرے خلاف ٹوٹ پڑے گا جو میں نہیں چاہتا کیوںکہ اس وقت ہمیں سخت ضرورت ہےایک امہ، قوم بننے کی اور ریاست پاکستان کی فلاح بہبود کیلئے ایک دوسرے کے خلاف ذاتی، ادارتی، لسانی، فقہی اور مذہبی اختلاف چھوڑ کر دلوں میں ایک دوسرے کیلئے وسعت پیدا کرنے کی۔

گزشتہ دنوں احسان اللہ احسان کا انٹرویو کرنے والے صحافی کے خلاف نہ جانے کتناکچھ بےبنیاد لکھا اور بولا گیا جو سراسر ایک احمکانہ عقلمندی ہے اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن ایک محب وطن پاکستانی کو دہشتگردوں کا سہولتکار تک کہہ دینا کہاں کا انصاف ہےافسوس صدافسوس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں الزام برائےالزام کی روایت سے عام اعوام تو کیا نامور مصنفین بھی نہیں بچ سکے اور سلیم صافی کے خلاف لکھنا فرض عین عبادت سمجھ لیا بجائے انکی مثبت سوچ اور صحافتی زمہ داریوں کو سمجھنے کے؟ اگر اس انٹرویو میں ایسی کوئی بات ہوتی تو انتہائی ذمہ دار ادارہ کی طرف سے یہ انٹرویو ہی نہ کرنے دیاجاتا لہذا خوامخواہ قانونی پیچیدگیاں پیدا کرکے انٹرویو نشر نہ ہونے دینا سے یہ ثابت ہوگیا کہہ پاکستان میں جمہوریت و میڈیا یرغمال ہے احسان اللہ احسان کا ہیرو کے طور پر پیش کرنے کا راگ الانپنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہہ کس بھی انسان کا ہیرو اور زیرو بننے کا انحصار انکے کردار پر ہوتا ہے اور پوری پاکستانی قوم تو کیا پوری دنیاء جانتی ہے کہہ احسان اللہ احسان ایک وحشی درندہ نما انسان ہے انٹرویو نشر کرکے اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے جیو اور سلیم صافی سے اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن وہ بھی اسی طرح محب وطن پاکستانی ہیں جیسے کہہ ہم مجھے تو ان لوگوں کی حب لوطنی مشکوک لگتی جو دوسروں کے محب وطن ہونے پر شک کرتے ہیں۔

جو لوگ کلاشنکوف کلچر کے فیدائی ہیں ان سے میں یہیں کہونگا کہ اگر جنگیں لڑائی سے جیتی جاتی تو ہماری حکمران گدی پر آج کتے براجمان ہوتے” بہت ہوگئے ضرب عضب اور ردالفساد! کسی بھی جنگ، لڑائی کا آخری حل تو بات چیت ہی میں ہے اس سے آپ لاکھ انکار کرلیں مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے جو شاید آپکو اب نہیں خدانخواستہ تب سمجھ آئے گی جب اس سے بھی بڑھ نقصانات اٹھاوگے؟ ریاست پاکستان کو چاہیئے کہہ دہشتگردوں و قاتلوں سے عام معافی کا اعلان کرے جو آنا چاہے جی بسم اللہ جو ضد پہ رہے قتل فی سبیل اللہ ہماری سرائیکی میں ایک کہاوت ہےکہہ”اگر فجرکابھولا شام کو صحیح سلامت گھر واپس آجائےتواسےبھولانہیں کہتے”

16دسمبر2015 کو "دی نیشن میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں دہشتگردی کا شکار ملالہ یوسفزئی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہہ ہمیں ضرورت ہے آپریشن ضرب قلم کی نہ کہ ضرب عضب اور ایک اور جگہ پر تو ملالہ نے دل کو وسیع کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ جن لوگوں نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا آج میں ان لوگوں کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ بندوق کا راستہ چھوڑ کر میرے پاس آئیں میں ان کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دینا چاہتی ہوں یہ بات ایک بچی کو تو سمجھ آگئی مگر ہمارے نام نہاد بڑے بڑے حکمرانوں کو سمجھ نہیں آئی اللہ کرے کہ انہیں بھی جلد سمجھ آجائے۔

ہمارے دین اسلام میں نا حق قتل کا بدلہ یقنین قتل ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ معاف کردینے والے شخص کا اللہ کے حضور مرتبہ بھی بلند ترین ہے۔
آخر میں بس اتنی سی گذارش ہے کہہ ہمیں بطور ریاست ضرورت ہے آپریشن ضرب قلم اور ردالکتاب کی تاکہ کلاشنکوف کلچر کو کتاب کلچر سے شکست دی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے