کبھی صوفی ثقافتی ہیرو تھا

صوفی تخیل کی اُڑان بھرنے سے پہلے پائوں تلے موجود مٹی کو گلے لگا کر اس کی دھڑکن محسوس کرتا ہے، اس کی سرگوشی سنتا ہے، اس سے دوستی کر کے اس کے دکھ سکھ معلوم کرتا ہے۔ تن کی مٹی اور زمین کی مٹی میں کوئی گہرا ناتا ہے اسی لئے دونوں میں ایک خاص کشش ہے۔ جب قادرِ مطلق انسان کا بُت بنا کر اپنی روح پھونکتا ہے تو وہ بُت اسی مخصوص کی ترجمانی کرتا ہے جہاں اس کی پیدائش ہوتی ہے۔ اسی لئے مٹی کے پتلے میں علاقائی آب و ہوا سرایت کئے ہوتی ہے۔ ہر علاقے کی مٹی کا رنگ اور اثر وہاں کے باسیوں کے مزاج میں نظر آئے گا۔

صوفی فطرت سے ہم آہنگی اختیار کر کے آفاقیت کی طرف بڑھتا ہے۔ دنیا کا سب سے عظیم ادب، موسیقی، آرٹ اور کلچر زمین سے جڑی لوک دانش کی عکاس ہے۔ جب تک انسان زمین کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو، اس کی دھڑکن کو محسوس نہ کر سکے، اس کی زبان کے مفاہیم نہ سمجھ سکے، اس کی علامتوں اور اشاروں تک رسائی حاصل نہ کر سکے اس کا اظہار معنی و مفہوم کی لامتناہی دنیا کا نقشہ کھینچنے سے قاصر رہتا ہے۔ گہرائی اور تاثیر کے فقدان سے اس کے لفظ اور تصویریں سطحی تاثر تک محدود رہتی ہیں۔ زمین سے جُڑت کے بعد اس کا دل پوری کائنات کی آواز سننے لگتا ہے۔ لوک دانش اس پر حیات کے رنگ برنگے اسرار ظاہر کرتی ہے۔ اس کی آنکھیں سمندروں، پہاڑوں اور فضائوں میں جھانکنے کی اہلیت حاصل کر لیتی ہیں۔ زمین اپنا سینہ چاک کر کے دل اس کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ وہ دل جس میں پوری کائنات کی حقیقت کا نقشہ محفوظ ہے۔ یہیں سے صوفی پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ یہ پوری کائنات تو ایک نقطے کی مانند ہے۔ فطرت کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ ہزاروں کروڑوں میلوں کے فاصلے کے باوجود فطرت کے مختلف مناظر ایک دھڑکن سے بندھے ہیں۔ صوفی اس دھڑکن کو روح میں بسا لیتا ہے۔ اپنی زمین کی بولی اور کلچر اُسے دنیا بھر کی زبانوں اور تہذیبوں کو سمجھنے کی قدرت بخشتے ہیں۔ وہ کمپیوٹر کی ایک چِپ بنا کر دنیا کو جیب میں ڈال کر چلتا ہے۔ نقشہ دیکھتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ ذرے میں ایک کا عکس ہے۔ وجود مختلف ہیں مگر روحوں کا مرکز ایک ہے۔ ان کا صدور ایک ہستی سے ہوا ہے۔ ظاہری فرق معدوم ہوتا جاتا ہے اور انسانیت ایک لڑی میں پروئے ہار کی مانند ہو جاتی ہے۔

دھرتی کی اقدار سے جڑت کی وجہ سے صوفی کو معاشرے کے ثقافتی ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ اس نے زندگی بھر ان قدروں کی عملی پیروی کی۔ انہیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، ان کے آئینے میں زندگی کو دیکھا، ان کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار کیا اور انہیں خدمتِ خلق کا وسیلہ بنایا۔ اس ظاہری زندگی سے اگلی منزل انتقال کے بعد اس کا دربار ان تمام اقدار اور رسوم و رواج کا علمبردار بن گیا۔ صدیوں سے لوگ صوفیوں کے درباروں سے ثقافتی رنگوں کو خود میں جذب کرتے زندگی گزارتے رہے ہیں۔ ان کی پیدائش اور وفات پر عرس کی بجائے میلے لگتے تھے جن میں مقامی ثقافت کے تمام رنگ اجاگر کئے جاتے تھے۔ دور دور سے ان میلوں میں شرکت کے لئے آنے والوں میں عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ اپنے فن کے اظہار کے لئے گلوکار، تماشہ کرنے والے اور دیگر فنکار شامل ہوتے تھے۔ یہ میلے دراصل وہ پلیٹ فارم تھے جو ایک طرف لوگوں کو تفریح بہم پہنچاتے تھے اور دوسری طرف فنکاروں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور معاشی آمدنی کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ ڈھول، بھنگڑے، دھمال، ڈرامے، قوالیاں ان میلوں کی رونق تھیں۔ لوگوں کو جی بھر کر ہنسنے اور نت نئے تماشوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا تھا۔ ہزاروں لوگ ایک خاندان کی طرح ہو جاتے تھے۔ ایک لنگر سے کھاتے، ٹولیوں کی شکل میں بیٹھتے اور کھلے آسماں تلے بے خوف سوتے تھے۔ پھر ضیاء الحق کی خود ساختہ شریعت اور قانون سازی نے زندگی اور خوشی سے جڑی ہر شے پر ممانعت کا بورڈ چسپاں کر دیا۔

میلوں ٹھیلوں سے دور کر کے انہیں خوف کے قلعوں میں محصور کر دیا گیا۔ صوفیوں کے درباروں کو غیر صوفیوں کی اجارہ داری حاصل ہو گئی۔ ہر خانقاہ کا مزاج کو تبدیل کر دیا گیا۔ وہاں ثقافتی سرگرمیاں مانند پڑگئیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اور انتظامیہ، حکومت اس کے سامنے بے بس ہے۔ ظلم یہ ہے کہ آج ان عظیم صوفیا کے کلام میں بھی اضافے اور ترمیم کی جارہی ہے۔ صوفی خدمت خلق پر یقین رکھنے، عام انسان کی طرح رواداری اور حلیمی سے زندگی بسر کرنے کا قائل تھا۔ وہ طاقت کی بجائے اپنے عمل اور پاکیزگی سے دوسروں کو متاثر کرتا تھا۔ بعد میں آنے والوں کے پاس یہ طاقت تو نہ تھی اس لئے انہوں نے صوفیا کی منشاء کے برعکس پیری فقیری کا چولا پہن کر ٹھیکیداری شروع کر دی۔ بہت سے صوفی کی بجائے پیر کہلانا پسند کرتے ہیں کیوں کہ پیر کے مقلد اور پیروکار اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں۔ پیر کے اک اشارے پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ریاست نے بھی ان کو تھپکی دی اور کارِ حکومت میں لوگوں کی رائے خریدنے کے لئے انہیں وسیلہ بنایا۔ عوام کو عقیدت کے مقام سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ خدمت اور قربانی ان کا مقدر کر دی گئی۔

صوفیاء نے صدیوں پہلے علم منطق، نجوم، ریاضی، نظم و نثر اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور انہیں علوم کی مدد سے ظاہر کو پہچانا اور باطن تک رسائی حاصل کی۔ حکومت اپنے تئیں فیصلہ کرنے سے قاصر رہی ہے کیوں کہ عام آدمی کو حقوق مانگنے اور بغاوت سے دور رکھنے کے لئے اسے ان کے مالکان کی ضرورت رہتی ہے تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ صوفیا کے خانوادوں میں ایک خاندان ایسا ہے جس نے حقیقی معنوں میں تصوف کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے خدمت خلق کا رستہ اپنایا۔ گزشتہ دنوں گڑھ مہاراجہ میں فقر کے سلطان اور معرفت کے ولی حضرت سلطان باہوؒ کے مزار پر حاضری کا شرف حاصل ہوا تو بہت سی خوشگوار حیرتوں نے بدلتی سوچ کا عندیہ دیا۔ اسی خانوادے کے چشم و چراغ صاحبزادہ بلال سلطان جو خود یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے ہیں نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب بھر میں موجود بہت سے مدارس کو جدید تعلیمی اسکولوں میں تبدیل کر دیا ہے جن کی مناسب فیس ہے اور جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی رہنمائی، کمپیوٹر لیب میسر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی حوالے سے ملک کو مضبوط بنانے اور انسان کا مورال بلند کرنے کے لئے یہ بہت ضروری تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومتِ وقت اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مدارس میں جدید تعلیم کی تدریس کو ممکن بنائے۔ وہاں موجود اساتذہ کو مختلف انتظامی شعبوں میں سیٹ کر دیا جائے جب کہ ان جدید ا سکولوں کی ملکیت بدستور پہلے مالکان کے پاس رہنے دی جائے تو یقیناً پھر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا مگر ہمارا مستقبل ضرور روشن اور محفوظ ہو گا۔ صوفیا کا کلام انسانیت کا اثاثہ ہے۔ کسی کو ان کے نظریات اپنی فکر کے مطابق ڈھالنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہئے۔ صوفیاء کے درباروں کا ماحول ان کی حیات جیسا کر دیا جائے تو وہ ایک بار پھر ثقافتی ہیرو کے طور پر انسانیت کیلئے جمالیات اور اخلاقی قدروں کا منبع بن جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے