ڈاکٹر منو بھائی

بہت سال پہلے احمد ندیم قاسمی ’’امروز‘‘ نام کے ایک اخبار سے وابستہ تھے۔ ایک دن انہیں اخبار کے ادبی ایڈیشن کے لئے ایک نوخیز شاعر منیر احمد قریشی کی ایک نظم موصول ہوئی۔ قاسمی صاحب اس نئے شاعر کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ انہوں نے منیر احمد قریشی کا نام کاٹ کر وہاں منو بھائی لکھ دیا اور نظم شائع کر دی۔ پھر یہ شاعر منو بھائی راولپنڈی کے ایک اخبار ’’تعمیر‘‘ میں پچاس روپے ماہوار پر نوکری کرنے لگا۔ ایک دن اخبار کے دفتر میں ایک دکھیاری عورت آ گئی جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔ اس عورت کو منو بھائی کے پاس بھیجا گیا تاکہ وہ اس کی بات سن کر ایک بچے کی گمشدگی کی خبر بنا سکیں۔ منو بھائی نے بچے کا نام اور عمر پوچھنے کے بعد اس کی ماں سے سوال کیا کہ بچے نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے؟ ماں نے جواب میں کہا جب میرا بچہ مجھ سے بچھڑا تو اس نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن اب تو اسے بچھڑے سات دن ہو گئے اس کے کپڑے اب میلے ہو چکے ہوں گے۔ ماں کے یہ الفاظ منو بھائی پر اثر کر گئے اور وہ شاعر سے کالم نویس بھی بن گئے۔ انہوں نے ایک ماں کے الفاظ پر ایسا کالم لکھا کہ جس نے پڑھا اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وقت گزرتا گیا۔ منو بھائی نے شاعری اور کالم نویسی کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگاری بھی شروع کر دی اور وہ نام جو انہیں احمد ندیم قاسمی نے دیا تھا اس نام کی خوب لاج رکھی۔ منو بھائی سے میرا پہلا تعارف اپنی والدہ کے ذریعہ ہوا۔ والدہ مرحومہ اکثر اوقات والد مرحوم کی عینک اپنی آنکھوں پر سجا کر بڑے اہتمام سے منو بھائی کا کالم پڑھا کرتی تھیں۔ ایک دن میں نے والدہ سے پوچھا کہ آپ منو بھائی کا کالم کیوں پڑھتی ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا یہ دکھی لوگوں کے بارے میں لکھتا ہے۔ میری والدہ بھی ایک دکھی عورت تھیں جن کا خاندان 1947ء میں جموں سے سیالکوٹ ہجرت کے دوران ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے نیچے چھپ کر جان بچائی۔ میری نانی بلوائیوں سے لڑتی رہیں اور پھر انہیں اغواء کر لیا گیا۔ میری والدہ مرتے دم تک اپنی ماں کو تلاش کرتی رہیں اور اپنی ماں کے دکھ نے انہیں منو بھائی کے کالم کا قاری بنا دیا کیونکہ منو بھائی اکثر کسی نہ کسی ماں کے دکھ کو اپنے کالم کا موضوع بناتے۔

1990ء کے اگست کے ابتدائی دن تھے۔ میں نے روزنامہ جنگ میں ایک مختصر خبر فائل کی کہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیراعظم ہوں گے۔ اس خبر کے شائع ہونے سے پہلے ہی خبر باہر نکل گئی اور اسی رات مجھے دفتر کے باہر سے اغواء کر کے خبر کا سورس پوچھا گیا۔ خبر کا سورس مولانا کوثر نیازی تھے جنہوں نے صدر غلام اسحاق کی تقریر لکھی تھی لیکن خبر کی تصدیق اس زمانے کے وزیر پارلیمانی امور خواجہ احمد طارق رحیم نے کی تھی۔ پہلے تو میں نے سورس بتانے سے انکار کر دیا لیکن جب مارنے والوں نے میرے کپڑے اتارنے کا عمل شروع کیا تو ذہن میں خیال آیا کہ طارق رحیم کی جنرل اسد درانی سے بڑی دوستی ہے اگر میں اصل سورس کو بچا لوں اور طارق رحیم کا نام لے دوں تو شاید بچت ہو جائے۔ میں نے طارق رحیم کا نام لیا تو پھینٹی بند ہو گئی۔ کچھ دیر میں ایک بڑا افسر آیا اور اس نے میرے گال پر ایک زور دار تھپڑ رسید کرنے کے بعد کہا کہ یہ صحافت چھوڑو اور سی ایس ایس کر کے کوئی ڈھنگ کی نوکری کرو۔ مجھے ظفر علی خان روڈ پر طارق رحیم کے گھر کے پاس گاڑی سے نیچے پھینک دیا گیا۔ میں رکشے میں گھر پہنچا تو والدہ نے دودھ میں ہلدی ملائی اور میرے درد کی دوا بنا ڈالی۔ میں ان سے بار بار ایک سوال پوچھے جا رہا تھا کہ کیا مجھے صحافت چھوڑ دینی چاہئے؟ پہلے تو وہ خاموش رہیں پھر کہا چھوٹے بہن بھائیوں کو مت بتانا تمہارے ساتھ کیا ہوا۔ تمہارا باپ کہا کرتا تھا اس ملک میں صحافت بہت مشکل ہے پھر تم کیوں صحافی بنے؟ اب بن گئے ہو تو ڈر خوف کے باعث صحافت چھوڑنا بری بات ہو گی لیکن بہتر ہے تم منو بھائی سے مشورہ کرو۔ دو تین دن میں بے نظیر حکومت برطرف ہو گئی۔

میرے اغواء اور تشدد کی خبر حیدر حسن نے ’’دی نیشن‘‘ میں شائع کر دی تھی لہٰذا دوستوں ساتھیوں کو علم ہو گیا تھا۔ ایک دن میں منو بھائی کے پاس حاضر ہو گیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ وہ غور سے مجھے دیکھتے رہے اور پھر پوچھا ۔’’برخوردار قائم ہو نا‘‘۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کھکھلا کر ہنس دیئے۔ پھر بولے گھبرانا نہیں بس ماں کا خیال رکھا کرو۔ کچھ سال کے بعد میں نے کالم لکھنا شروع کیا تو منو بھائی کے علاوہ جناب عطاء الحق قاسمی، جناب نذیر ناجی، جناب نثار عثمانی اور جناب احمد بشیر کے علاوہ جناب حمید جہلمی کی بھرپور حوصلہ افزائی میسر آئی جو اس ناچیز کی خوش قسمتی تھی۔ 1995ء میں نواز شریف کی تحریکِ نجات کے دوران ریگل چوک لاہور میں جاوید ہاشمی پر بہت تشدد ہوا۔ میں نے اس تشدد کے آنکھوں دیکھے حال پر ایک کالم لکھا جس پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو بہت ناراض ہوئے۔ انہوں نے میرے اخبار کی انتظامیہ سے مجھے نکالنے کا مطالبہ کیا اور آخر کار ’’شہر بدری‘‘ پر معاملہ ختم ہوا۔ میں اسلام آباد آ گیا۔ اسلام آباد آنے والوں کا عام طور پر پاکستان سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ میں پاکستان سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے منو بھائی کے کالم ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا ہوں۔ کچھ دن پہلے راولپنڈی میں ایک عورت نے مجھے بتایا کہ اس کا بیٹا خون کی بیماری میں مبتلا تھا لیکن لاہور کے سندس اسپتال میں ڈاکٹر منو بھائی نے اس کا کامیاب علاج کر دیا۔ یہ سن کر مجھے منو بھائی پر پیار بھی آیا اور فخر بھی محسوس ہوا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے ایک خیراتی ادارے سندس فائونڈیشن کے لئے بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔ یہ ادارہ تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ پاکستان میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس بیماری میں مبتلا بچوں کو مسلسل انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بیماری کے مریض کئی بچوں کی مائوں کو طلاق دے دی جاتی ہے۔ منو بھائی نے اپنی زندگی کو تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا کم از کم چھ ہزار بچوں کے لئے وقف کر دیا ہے جو سندس فائونڈیشن کے زیر علاج ہیں منو بھائی نے اپنے ناتواں کندھوں پر ہزاروں مائوں کے دکھ اٹھا رکھے ہیں۔ وہ مجھے بھی کئی مرتبہ سندس فائونڈیشن میں بلا کر اپنے غریب مریضوں سے ملوا چکے ہیں۔ آج میں نے یہ سطور ڈاکٹر منو بھائی کا کچھ بوجھ بانٹنے کیلئے تحریر کی ہیں۔

اگر آپ بھی ڈاکٹر منو بھائی کے کندھوں پر موجود بوجھ کو بانٹنا چاہتے ہیں تو اپنے صدقات اور زکوٰۃ سندس فائونڈیشن کو الائیڈ بینک لمیٹڈ کے اکائونٹ نمبر 0010012282530015برانچ کوڈ 0227شادمان مارکیٹ لاہور میں بھجوایئے اور خون کی بیماری میں مبتلا بچوں کی دعائیں پایئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے