جدت کے عجیب رنگ

وہ راولپنڈی کے کمیٹی چوک میں کتابوں کی ایک بڑی دکان میں نئی نسل کو پرانی ریت و رواج اور موجودہ دور کی نامانوسیت پر بھاشن دے رہے تھے۔

’’اب کتابوں سے وہ لگاؤ کہاں؟ ہمارے زمانے میں لوگ کتابیں پڑھتے تھے۔ مطالعہ کرتے تھے۔ وسیع النظر لوگ تھے‘‘ بابا جی نے آہ بھر کر کہا۔۔ ’’نئی نسل تو پوری طرح نئے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔مگر افسوس کہ جدت کو بھی غلط انداز سے اپنا رہی ہے‘‘ پانچ چھ نوجوان جو شکل و صورت سےطلباء لگ رہے تھے۔ بہت انہماک سے باباجی کی گفتگو سن رہے تھے۔

دفتر سے ویکلی آف ملی تو میں اپنے دوست اِفتی کے ساتھ دل پشوری کرنے بازار کی طرف گیا۔ وقت گزاری کیلئے چند کتابیں لینے میں بھی اسی دکان میں گھس گیا تھا۔ اسلئے باباجی کا لیکچر مجھے بھی سننا پڑا۔ انہوں نے عمر کی کوئی لگ بھگ ستر بہاریں دیکھی ہونگی، سفید بارعب داڑھی، سرپر سفید ٹوپی اور ہاتھ میں چھڑی لئے، وہ بزرگ بھی شاید بیتے دنوں کے کچھ نقش ڈھونڈنے آئے تھے۔

باباجی کتابوں کی افادیت اور اہمیت پر دل کھول کر بولے جارہے تھے جب انہوں نے کتابوں سے دوری کیلئے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کیا تو میں نے بھی اپنی دانش جھاڑنے کی کوشش کردی۔

’’مگر جدت کا بہت اچھا اثر بھی تو ہوا ہے ۔ پہلے خط بھیجے جاتے تھے۔ تار بھیجےجاتے تھے۔ غمی و خوشی کی خبر کیلئے دوردراز علاقوں میں خصوصی طور پر بندے کو بھجوایا جاتا تھا ۔ ڈیجیٹل انقلاب نے تو زندگی آسان کردی ہے‘‘

باباجی بہت آرام سے سن رہے تھے۔ تیر نشانے پرپاکر میں نے مزید کہا ’’پہلے لوگ پیدل یا تانگوں پر سفر کرتے تھے۔ جن کی جگہ تیز رفتار ذرائع نقل و حمل نے لے لی ہے۔ پہلے خواص ہی فون استعمال کرتے تھے لیکن موبائل فون کی بہتات سے یہ امتیاز بھی ختم ہوگیا۔ انڈرائیڈ فون اورتھری جی فورجی ٹیکنالوجی نے تو سونے پہ سہاگے کا کام دیا ہے۔ اخبارات پڑھنے ہوں یا کتابیں، ملکی حالات سمجھنے ہوں یا سات سمندر پار دنیا کی صورتحال، موبائل کی اسکرین پر ایک کلک کریں تو سب کچھ سامنے آجاتا ہے‘‘

باباجی نے مشفقانہ لہجے میں کہا ’’سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت مسلم ہے لیکن ذہنی طورپر ہماری کمزور و لاغر قوم مہذب دنیا کی طرح جدت کا وار سہہ سکتی ہے؟ کیا ہماری نئی نسل یہ جدیدیت اسی طریقے سے اپنا رہی ہے جیسا کہ مغرب؟

ہمیں لاجواب پاکر باباجی نئی نسل کے خوب لتے لینے لگے بولے ’’ یہی وہ ستم ظریفی ہے جسے آجکل کے نوجوان سمجھ نہیں رہے۔ جدت کا بے لگام گھوڑا سرپٹ دوڑرہا ہے اور آگے بھی دوڑتا رہے گا کیونکہ جدت پر قدغن لگ نہیں سکتی۔ مگر جس طرح ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے اسی طرح اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں‘‘ بابا بڑے ردھم میں کہتے رہے اور ہم سنتے رہے۔

اس نے کہا کہ مواصلات اور نقل و حمل کے تیز ترین ذرائع سے فاصلے مٹ گئے مگر دلوں میں دوریاں بڑھ گئیں۔ چِٹھی کی جگہ ای میل نے لے لی تو بدلے میں مٹھاس کی جگہ بوریت نے لی۔

باباجی کا ناسٹلجک رنگ پورے ماحول پر چڑھ چکا تھا۔ باہر سڑک پر سے گزرنے والی گاڑیوں ، رکشوں اور ویگنوں کے ہارن کی چیختی چنگھاڑتی آوازیں جب سماعتوں سے ٹکراتی تھیں تو قدیم اور جدید امیزش کا بلیک اینڈ وائٹ منظر بن جاتا تھا۔ مگر باباجی دوراندیش آدمی تھے ایک عمر گزار چکے تھے۔ لہجے میں شفقت اور باتوں میں وزن تھا جس کا سحر سب پرچل چکا تھا۔

زندگی کی رہگزر میں ہمارا آمنا سامنا کبھی کبھی ایسے لوگوں سے بھی ہوتا ہے جنہیں ہم جانتے اور پہچانتے نہیں لیکن جب بولیں تو باتوں سے خوشبو آئے۔ باباجی بھی ایسے ہی قبیل سے تھے۔ مگر حالات سے کچھ زیادہ ہی مایوس ۔۔

پاکستان میں کروڑوں لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں لیکن کتاب سے پیار کرنے والے شاید اب بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ یوں سمجھیں آٹے میں نمک کے برابر۔۔ لائبریریاں ویران پڑ گئی ہیں ، کتاب گھروں میں سناٹوں کا راج ہے۔ ہم شاید بے خبرلوگ ہیں جو لاعلمی میں موجودہ صورتحال کو درست مان رہے ہیں۔

اسلئے باباجی جیسے لوگوں کو پکا یقین ہے کہ سوہنی دھرتی کا سینہ بنجر ہوچکا ہے۔ اچھے لکھاری ناپید ہوچکے ہیں۔ نئی نسل نے جدید لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ افسانہ نگار اب بھی پرانی دھنوں سے کھیل رہے ہیں ۔ ناول نگار یوٹوپیائی دنیا میں مگن ہے۔ شاعر صرف زلف جاناں کے پیچ وخم سنواررہےہیں۔
ان بزرگوں کی پاکستانی معاشرے پر تنقید بے جا بھی نہیں ۔ ہماری خاصیت ، اصلیت او خالصیت شاید ختم ہوگئی ہے۔ انفرادی طور پر ہم آگے بڑھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں مگر اجتماعی طور پر خود کو آتش فشاں کے دہانے پر پاتے ہیں۔

انسانیت پر حیوانیت غالب آگئی ہے۔ اصل کے نام پر نقل، دودھ کے نام پر زہر، حلال کے نام پر مردار، اچھے پکوانوں کے نام پر گند بیچا جارہا ہے۔ بات بات پر قسم، منافقت، دروغ گوئی اور حق تلفی ریت بن چکی ہے۔ عبادت دکھاوا ، فضول خرچی فیشن اور مکاری و چالاکی سیاست بن چکی ہے۔

جہاں سادگی طعنہ بن جائے، خوشامد ترقی کا زینہ بن جائے، تنقید کی جگہ تقلید اور تعمیر کی جگہ تخریب لے، عطائی ڈاکٹر کہلائیں، گوگلائزڈ پی ایچ ڈی ہولڈر محقق بن بیٹھیں تو ایسے معاشروں میں باباجی جیسے لوگ خود کو اجنبی ہی پاتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں ؎

میں قنوطی ہی سہی، اہل رجاء سچ کہنا

کیا تمہیں صبح کے آثار نظر آتےہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے