مصلح جہاں،بشریت کو جس کا انتظار ہے

کائنات میں ہر زی حیات مخلوق کمال کا طالب ہے- اگر دانہ گندم سے پوچها جائے کہ تیرا کمال کیا ہے تو وہ اپنی زبان بے زبانی سے جواب دے گا میرا کمال زمین میں جاکر نشونما پانا ہے اور آہستہ آہستہ تربیت حاصل کرکے پل بڑهہ کر خوشہ بننا ہے- حیوانات کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی قوہ غریزہ کے بل بوتے پر خوب کها پی کر توانا بن جائیں اور ہرقسم کے ممکنہ خطرات سے اپنے اور اپنے بچوں کا دفاع کریں ،اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کرکے اپنی نسل پڑهانے کی کوشش کریں اور ہوسکے تو دنیا میں دائمی حیات کا مالک بن جائیں- اسی طرح حضرت انسان بهی کمال کا متلاشی رہتا ہے- انسان کا کمال مال جمع کرنا، بینک بیلنس بنانا، کوٹهی وبنگلہ بنانا،صرف حیوانوں کی طرح نسل بڑهانا اور خواہشات کو پورا کرنا نہیں ہے بلکہ بشر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی قوہ عقل کے ذریعے غور وخوض کرکے اپنی خلقت کے مقصد کو سمجهیں-

غرض خلقت انسان بہت ارفع ،پاک اور بلند ہے – عبادت خدا انجام دے کر خالص عبد مطیع تام الہی بننا انسان کی خلقت کا مقصد ہے- عبد کے معنی ہے غلام- غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا کے حکم سے سرمو اختلاف نہ کرے- اس ہدف تک انسان کی رسائی کو ممکن بنانے کے لئے خدا نے بشریت کی جانب ایک لاکهہ چوبیس ہزار ہستیوں کو اپنا نمائندہ اور هادی بنا کر بهیجا- وہ آئے اور لوگوں کو خدا کی جانب دعوت دی- حق اور باطل کا چہرہ دکهایا- جنت اور جہنم کے راستوں کی نشاندہی کرائی- انسانی صلاحیتوں اور استعداد کی اہمیت بیان کیا -دنیا اور آخرت کی زندگی سے لوگوں کو واقف کرایا -دنیا میں پرسکون زندگی گزارنے کے اصول سے بشر کو آشنا کرایا – سعادت دارین کا مالک بننے کے اسباب وعلل کی وضاحت فرمائی –

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی( ص) پر ختم نبوت ہوا- آنحضرت کے بعد سلسلہ نبوت کا تو خاتمہ ہوا مگر ہدایت بشر کا سلسلہ ہر گز ختم نہیں ہوا ،بلکہ ہر دور اور ہر زمانے میں خدا کا نمائندہ موجود رہا جو لوگوں کی رہنمائی اور رہبری کا سنگین فریضہ سر انجام دیتا رہا ہے- پیغمبر اکرم(ص) کے بعد امامت کا سلسلہ جاری ہوا- اماموں کا ہدف پیغمبر گرامی اسلام کے ہدف سے ہرگز جدا نہیں تها ,بلکہ انہوں نے آنحضرت (ص)کی راہ وروش اور کردار وسیرت کی ترویج واشاعت میں اپنی تونائیاں صرف کئیں- آئین اسلام کو معاشرہ انسانی میں پهیلانے مضبوط اور مستحکم کرنے میں بهر پور کردار ادا کیا- تاریخ گواہ ہے کہ روز ازل سے ہی نمائندہ الہی کے مدمقابل شیطانی نمائندے رہے ہیں, جن کا ہدف لوگوں کو ظلالت اور گمراہی کی طرف دعوت دینا، منفی اقدار کو معاشرہ انسانی میں رواج دینا ،جهوٹ خیانت ،غیبت ،تہمت، حسد اور ان جیسی دوسری بری صفات کا معاشرے میں انتشار کرنا رہا ہے – انہوں نے بشریت کو بے لگام خواہشات نفسانی کا اسیر ہونے کی اور بے قید وبند آذادی کی تعلیم دی گئی- شیطانی نمائندوں نے بنی نوع انسان کو یہ باور کرایا گیا کہ انسان کی خلقت کا مقصد یہی دنیوی زندگی کی راحت اور عیش ونوش ہے- کوئی آخرت نہیں- کوئی حساب وکتاب نہیں -قبر میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا – یہ ساری چیزیں بے بنیاد ہیں – بالفرض اگر آخرت کی زندگی ہو ،حساب وکتاب کا سلسلہ ہو، نیک کام کرنے والوں کے لئے جنت اور برے کام انجام دینے والوں کو جہنم میں ڈال دینا صحیح ہو ،تو بهی یہ چیزیں ادهار ہیں، جب کہ دنیا اور اس کی لزتیں نقد ہیں- نقد بہتر ہے ادهار سے- لڑو مارو اور حکومت کرو – اجتماعی زندگی میں مفادات شخصی کو ترجیح دینا عقلمندی کی علامت ہے-و…

یہاں تک کہ آج ہمارا پاکستانی معاشرہ اعتقادی اور اخلاقی فسادات سے بهر چکا ہے- ہمارے ملک میں فاسق وفاجر افراد کی حکمرانی ہے- وہ صد در صد شیطانی نمائندوں کی تلقینات پر دل وجان سے عمل پیرا ہیں- وہ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی اور قومی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں- وہ لڑو مارو اور حکومت کرو کی پالیسی کا عملی مصداق بنے ہوئے ہیں- ہمارے معاشرے میں عدالت ناپید ہے- خیانت، جهوٹ ،غیبت تہمت کا بول بالا ہے- اقلیتی گروہ کو ستم کا نشانہ بنانا حکمرانوں کی پہچان بنا ہوا ہے- بهائی چارگی اور اخوت قصہ پارینہ بنی ہوئی ہے- اسلامی قانون کا نفاذ خال خال نظر آتا ہے- فحشا اور منکرات باعث فخر بنے ہوئے ہیں- اس گهمبیر صورتحال کو دیکهتے ہوئے ہر انسان کے ذهن میں یہ سوال ابهرنا فطری ہے کہ کیا کوئی ہے جو ہمیں ان مشکلات اور مسائل سے نجات دلائے اور بشریت کو چین اور سکون کی زندگی سے مالامال کرے؟

جواب یہ ہے کہ ہاں ہے ایک منجی ضرور آئے گا- تمام الہی اور غیر الہی ادیان کا عقیدہ ہے کہ آخر کار ایک شخص ظہور کرے گا جو ایک الہی رسالت لے کر انسان کو ظلم، گمراہیوں اور جرم و گناہ کے اندھیروں سے نجات دلائے گا اور زمین اور اہل زمین کے لئے خوشبختی اور خیر و برکت لائے گا۔ مکتب اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس مکتب کے بانی اور صاحب نے اس منجی کا مصداق اس کی پوری خصوصیات کے ساتهہ معین فرمایا ہے، جس کا تذکرہ قرآن پاک میں بهی ہوا ہے اس سلسلے میں آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی تحریر فرماتے ہیں:

کہ بعض قرآنی آیات دنیا کے مستقبل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں منجملہ وہ آیات جن میں حق و حقیقت کی آخری فتح، زمین پر صالحین کی عالمی حکومت، مستضعفین کی ورثہ داری، کلمۃ اللہ کی سربلندی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ان آیات میں کبھی صراحت اور کبھی کنایت کے ساتھ امام زمانہ(عج) کے ظہور اور قیام و عدل اور عالمی اسلامی اور انسانی حکومت کی تشکیل کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔پیغمبر اسلام (ص) واضح الفاظ میں یہ فرمایا ہوا ہے کہ جب دنیا سخت ترین اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہوگی ہر طرف ظلم و تشدد کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے انسانیت کے درمیان سے امن اوربرادری ناپید ہوچکی ہوگی اور سربراہان حکومت اصلاح اور بڑھتے ہوئے فساد کو روکنے سے عاجز ہوں گے، جنگ و جدال، قتل و غارتگری اور اختلافات کے باعث نسل انسانی خطرہ میں پڑ جائے گی، خطرناک ایجادات اور اجتماعی قتل کے اسلحے ترقی کی منزل پر ہوں گے انسانی اقدار دم توڑ چکی ہوں گی اور ان کی جگہ اخلاقی برائیوں کا دور دورہ ہوگا، کمزور اور چھوٹے ممالک اور اقوام کی حمایت وحفاظت کے نام پر وجود میں آنے والے اداروں سے بھی ضعیف اور مظلوم اقوام مایوس ہوچکی ہوں گی۔ اس وقت ایک عظیم مصلح الٰہی قیام کرے گا وہ نظام کائنات کی اصلاح کرے گا اوراس کے وجود سے کائنات کو ہر طرح کی بدبختی سے نجات حاصل ہوگی، ی

ہ عظیم مصلح پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت اور علی و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کی اولاد سے ہوگا۔”یملأ الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجوراً” کے مطابق وہ عظیم الشان مصلح، رو ئے زمین پر حق وعدالت کی حکومت کا پرچم لہرائے گا اور چھوٹے بڑے قصبوں، شہروں سے لے کر دیہاتوں تک دنیا کے چپہ چپہ پر نور اسلام جلوہ فگن ہوگا ہر جگہ قرآنی احکام نافذ ہوں گے، ذاتی اغراض و منافع کی آلائش سے پاک الٰہی قوانین کی حکمرانی ہوگی ہر ادارہ خلق خدا کے آرام و آسائش اور فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہوگا، بہترین نظام کے تحت عملی و اخلاقی کمالات کا سلسلہ شروع ہوگا اور اس طرح عمومی خوشحالی اور سطح زندگی کے معیار پر بہتری کے باعث روئے زمین پر کوئی فقیر نظر نہ آئے گا۔ فریقین کی مسلم الثبوت اور قطعی روایات میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ”کائنات کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ”مہدی موعود” کا ظہور نہ ہوجائے اگر اس کائنات کی عمر کا صرف ایک دن باقی ہوگا تو خداوند عالم اسی دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ یہ عظیم مصلح اپنے ظہور کے ذریعہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے” ۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے اوصاف و کمالات اور سیرت طیبہ، انداز ہدایت اور طرز حکومت، سے متعلق بھی بے شمار روایات وارد ہوئی ہیں۔ا سی طرح ابتدائے ولادت سے لیکر آپ کے امتیازات وخصوصیات، لوگوں کے ساتھ آپ کے برتاؤ، طول عمر، غیبت کے اسباب اور دور غیبت میں لوگوں کی ذمہ داریوں تک کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں اور ہزار سال سے زائد عرصہ سے بے شمار علماء و محققین کی کتابوں کا محور و مرکز اور موضوع بحث قرار پائی ہیں، یہ مباحث اتنے وسیع ہوچکے ہیں کہ ان سب کا احاطہ اب کسی بھی محقق کے لئے ممکن نہیں ہے۔مقصود یہ ہے کہ جو شخص بھی شیعہ وسنی محدثین کی کتب یا جوامع حدیث کی ورق گردانی کرے یہ بات بہ آسانی اس کے علم میں آجائے گی کہ جس مقدار میں حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ سے متعلق احادیث موجود ہیں اس مقدار میں شائد ہی کسی موضوع سے متعلق روایات پائی جاتی ہوں…

قطعی طور پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا انکار کرنا اور اس پر ایمان وعقیدہ نہ رکھنا ممکن نہیں ہے، فریقین کے محدثین کرام نے حضرت علیہ السلام کی ولادت سے قبل بھی اپنی کتب میں آپ سے متعلق روایات نقل کی ہیں جس کے بعد کسی بھی مسلمان کے لئے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔اس بشارت کے پورا ہونے کے لئے عالمی تغیرات، معاشرت کے موجودہ حالات اور مادی ترقی ان افراد کے لئے بھی امیدافزا ہے جو مسائل کو صرف ظاہری اسباب وعلل اور سطحی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں اوراس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آخرکار ایک دن انسانیت حکومت الٰہی کے زیر سایہ پناہ حاصل کرے گی۔ انسان نے اگرچہ قدر تی قوتوں کو مسخر کرلیا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ ایک گھنٹہ سے بھی کم مدت میں روئے زمین کے تمام جانداروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے لیکن اخلاق ومعنویات سے روگرداں اور گریزاں ہے اور اپنی خواہش کی تکمیل اور اپنے اقتدار پسند عزائم کو پورا کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز نہیں آتا اور ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے ایسے میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ انسان آرام سے بیٹھا رہے گا اور جنگ سے پرہیز کرے گا۔ کیا یہی چیزیں اس بات کا سبب نہیں ہوں گی کہ انسانیت کو عالمی انقلاب اور مختلف کوششوں کے باوجود اخلاق و تمدن کی نابودی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہو، خدا اور قیامت کے ایمان کی بنیاد پر انسانیت دونوں ہاتھ پھیلا کر عادل پیشوا کی حکومت کا استقبال کرے۔ ہم ہی نہیں ہر مسلمان اس دن کا انتظار کررہا ہے، ہمیں انسانیت کا مستقبل روشن وتابناک نظرآتا ہے اس لئے نشاط وامید سے لبریز جذبہ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں .. .ہم بشریت کے آخری نجات دہندہ کی ولادت باسعادت کے پرمسرت موقع پر عالم انسانیت خصوصاً ان حضرات کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں جو مادیت کی تاریکی، ظالموں کے ظلم وستم اور تباہی وفساد سے جاں بلب ہیں۔
” اللھم عجّل فرجہ و سہل مخرجہ و اجعلنا من انصارہ و اعوانہ ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے