وانا کرائی وائرس بنانے والوں کی دنیا بھر میں تلاش جاری

وانا کرائی نامی تاوان وصول کرنے والے وائرس حملے کی زد میں آنے کے بعد دنیا بھر کی تنظیموں کی توجہ اب اس تباہ کن حملے کے ذمہ دار افراد کی تلاش پر مرکوز ہو گئی ہے۔

یہ میل ویئر یا مضر سافٹ ویئر کمپیوٹر کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے جس کی نشاندہی امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے کی تھی لیکن اس اس کو ‘ہتھیار بنانے’ اور چھوڑنے والے افراد بالکل مختلف ہیں۔

٭ کیا آپ کا کمپیوٹر خطرے میں ہے؟
٭ ہیکنگ کے ذریعے تاوان کے بڑھتے واقعات، ماہرین کا انتباہ
٭ 99 ممالک غیرمعمولی سائبر حملے کی زد میں

ابھی تک کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے پس پشت کون ہے اور وہ لوگ کہاں ہیں۔

‘ایف سکیور’ نامی سکیورٹی کمپنی میں ریسرچ کے سربراہ مککو ہائپونن نے کہا کہ اس میل ویئر کا تجزیہ جاری ہے اور ابھی تک اس کے چھوڑنے والوں کا سراغ نہیں مل سکا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم لوگ تاوان وصول کرنے والے سو سے زیادہ ٹروجن گینگز کے پیچھے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا قطعی علم نہیں کہ وانا کرائی کہاں سے آ رہا ہے۔’

اس وائرس کا پہلا ورژن دس فروری کو چھوڑا گیا تھا جس نے اپنا کام 25 مارچ سے شروع کیا۔ اس کے تحت سپیم ایی میل اور پھنسانے والی ویب سائٹس کا استعمال کیا گیا اور وانا کرائی 1.0 کو پھیلایا گیا لیکن اس کے جال میں کوئی نہیں آيا۔

اس کا دوسرا ورژن وانا کرائی 2.0 جس نے گذشتہ دنوں تباہی مچا دی، اس میں پہلے والے ورژن سے صرف ایک فرق تھا کہ یہ خود سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

بلیپنگ کمپیوٹر سکیورٹی کے ایڈیٹر لارنس ابریمز نے کہا کہ تجزیہ نگاروں کو وانا کرائی کے کوڈ میں بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
بعض تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بالکل ہی نئے گروپ کا کام ہے۔ بعض لوگوں نے نشاندہی کی ہے کہ جو مشینیں روسی رسم الخط استعمال کرتی ہیں یہ میل ویئر ان کو بھی نقصان پہنچانے میں کامیاب رہا۔

روس سے جاری کیے جانے والے زیادہ تر میل ویئر کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں پر اثرانداز ہونے سے بچتے ہیں لیکن اس نئے وائرس کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

اس کے کوڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اسے ایک ایسی مشین پر پہلے پہل ڈالا گیا ہے جو گرینچ مین ٹائم سے نو گھنٹے آگے ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے تیار کرنے والے جاپان، انڈونیشیا، فلپائن یا پھر چین یا روس کے کسی دور دراز کے مشرقی حصے میں ہیں۔

بہر حال ابھی تک دو لاکھ سے زیادہ اس کا شکار ہو چکے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی نگرانی کرنا بہت مشکل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے