خارجہ پالیسی کی تلاش

چار میں سے تین پڑوسی ناراض، صرف ایک سرحد محفوظ ہے چونکہ اس جانب سمندر ہے، دنیا میں پاکستان کی بات پر کوئی دھیان دینے پر تیار نہیں، دہشتگردوں کی نرسری قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمارے بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ خارجہ پالیسی میں حکومتی عمل دخل صرف گالیاں کھانے تک محدود ہے۔ ایوب خان دور سے خارجہ معاملات پر سویلیں اثرورسوخ کم ہوتا گیا، بھٹو صاحب کی جارحانہ حکمت عملی کے باعث خارجہ معاملات پر سول حکومت کی گرفت کچھ عرصہ رہی، مگر ضیاالحق کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہو چکا ہے چونکہ اسٹیبلشمنٹ قومی سلامتی جیسے حساس امور کو سویلنز پر چھوڑنا نہیں چاہتی۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ خارجہ پالیسی کون بناتا ہے کہاں بنتی ہے مگر صاحب گالی تو صرف حکومت کو ہی دی جا سکتی ہے۔ دنیا ہم سے بار بار پوچھتی ہے کیا پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے؟ تو کیا ہمیں ایک بار اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیئے کہ ستر سال بعد یہ سوال کیوں؟

بھارت کی پاکستان دشمنی میں کوئی دوسری رائے نہیں، افغانستان میں حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی کیساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوا، صدر اشرف غنی نے گرمجوشی بھی دکھائی جو کچھ عرصے بعد ہی سرد مہری میں تبدیل ہو گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طویل افغان سرحد بھی اتنی ہی غیر محفوط ہے کہ جتنی بھارتی، چمن پر حملہ اسکی واضح مثال ہے۔ ایران کی جانب سے حالیہ بیان بھی لمحہ فکریہ ہے۔ چین پاکستان کا قدیم دوست اور سی پیک کا ساتھی ضرور ہے مگر حال ہی میں بھارتی تحفظات کے باعث سی پیک کا نام تبدیل کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا مسعود اظہر کیے معاملے کو بار بار ویٹو کرنے کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آتے رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ ہم پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں، عرب اور برادر اسلامی ممالک واضح طور پر بھارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت اور انسانیت سوز سلوک کی ترکی کے علاوہ کوئی مذمت بھی نہیں کرتا۔ دنیا میں پاکستان کو غیر معتبر کرنے میں بھارتی کردار سے زیادہ ہماری اپنی بے سمت اور بے ربط خارجہ پالیسی کا ہاتھ ہے۔ سچ یا جھوٹ مگر بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے لئےایک نا پختہ ریاست، دہشتگردی کی پناہ گاہ، اندرونی خلفشار میں مبتلا ملک ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے اور سفارتی سطح پر ہم اسکا موثر توڑ کرنے سے قاصر ہیں، شاید پاکستانی خارجہ پالیسی نے اس سے بدتر دور پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ افغانستان پر اعتبار کرتی ہے مگر ہم پر نہیں، کیا ہمیں وجوہات پر غور نہیں کرنا چاہیئے۔

سعودی عرب اور ایران کا مسئلہ نہ تو مذہبی ہے، نہ ہی مسلکی، خطے میں اقتدار کی جنگ کا حصہ بننا پاکستان کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ ایران ہو یا سعودی عرب، یمن ہو یا شام، ہماری اولین ترجیح پاکستان کا مفاد ہونا چاہیئے۔ ذرا ایک لمحے یہ بھی سوچیں کہ مسلم امہ کا ہر مسئلہ ہمارا ہے مگر ہمارا کوئی بھی مسئلہ مسلم امہ کی ذمہ داری کیوں نہیں؟ بھارت سرحد پر حملہ کرے تو دشمنی اور چمن پر افغان فائرنگ سے 11 افراد جاں بحق ہوں تو برادرانہ جھگڑا، دوست اور دشمن کیلئے واضح اور ایک ہی اصول کیوں نہیں؟ ایران ہو یا افغانستان، پاکستان پر حملہ کرنیوالے کو دشمن ہی تصور کیا جائیگا۔ ہماری غلطیان ہیں یا صورتحال کی تبدیلی بہرطور حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی اہمیت اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے بعد پاکستان امریکہ کیلئے غیر اہم ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ کسی طور بھارت جیسی بڑی مارکیٹ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں ہے۔

آخر ہماری ترجیح پاکستان کیوں نہیں ہے، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو تو خیر چھوڑیں، ذرا آس پاس کا جائزہ لیں لوگ مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، کوئی افغانستان کا ہمدرد ہے تو کوئی سعودی عرب، کوئی ایران میں حمایت میں خم ٹھونک کر کھڑا ہے تو کوئی امریکہ کے گن گاتا پھرتا ہے۔ شاہ سے بڑھکر شاہ کے وفادار، مجھے نہیں پتہ اسے ہجوم کہا جائیگا یا قوم، جو اپنے ملکی مفادات کو پس پشت ڈالکر دیگر ممالک کو ترجیح دیں انہیں بھلا قوم کیسے کہا جا سکتا ہے۔ شام کی جنگ بھی ہماری ہے، یمن جنگ میں بھی بھرپور حصہ لینا چاہیئے، روہنگیا مسلمانوں کی بھی مدد کرنی چاہیئے، بڑی خوشی سے کریں مگر پہلے اپنے ملک کا بھی تو سوچیں۔ امریکہ اور افغانستان کی جنگ اپنی تھی یا پرائی، یہ سوال اب بے معنی ہو گیا ہے چونکہ اب یہ جنگ پاکستان میں جاری ہے اور کوئی حیرت کی بات نہ ہو گی جب سیاسی پیشرفت کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو جائے اور پاکستان میں جنگ جاری رہے۔ معذرت کیساتھ جب اپنے ملک کے بارے میں ہمارا رویہ یہ ہو گا تو پھر حکومت اور سیاست کا کیا رونا۔ کہا جاتا ہے کہ خان لیاقت علی خان نے روسی دعوت پر امریکی دورے کو ترجیح دیکر سفارتی غلطی کی تھی، ستر سالہ خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو یہ غلطی پالیسی کی شکل میں مسلط نظر آئیگی۔ پاکستان نے کبھی بھی خطے کے ممالک کیساتھ تعلقات کو ترجیح نہیں دی، دور پرے بسنے والے ممالک قابل ترجیح رہے سو ناطہ زمین کے بجائے فضا میں معلق رہا پھر نتائج پر حیرت کی کیا بات ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں، پڑوسیوں کے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے، برادر اسلامی ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں، دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے، اپنی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہیں۔ یہ وہ بیانات ہیں جو ہم خارجہ امور پر سنتے رہتے ہیں، بیکار اور بے معنی، ایسی غیر جانبداری کا کیا فائدہ کہ آپ خود بے مصرف بن جائیں، کسی قطار و شمار میں ہی نہ رہیں۔ بھٹو دور میں پاکستان اسلامی ممالک کی قیادت کرتا تھا، امریکہ، برطانیہ اور یورپ پاکستان کی سنتے تھے اور اب صورتحال یہ ہے کہ خطے کے ملک ہوں یا برادر اسلامی ممالک، امریکہ ہو یا یورپ، پاکستان پر اعتبار کیلئے کوئی تیار نہیں، ہماری گونگی سفارتکاری کے پاس ریڈی میڈ بیانات کے سوا کوئی اختیار نہیں، حضور سفارتی بڑھکوں سے شاید عوام کی آنکھوں میں تو دھول جھونکی جا سکتی ہے مگر دنیا کی نہیں، دنیا باتوں پر نہیں اقدامات کو دیکھتی ہے۔

ارباب اقتدار کو یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ سارے اللے تللے پاکستان کی بدولت ہیں، یہ سمجھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان کے مالک سیاستدان نہیں، فوج، بیوروکریسی اور تاجر بھی نہیں، مجھ اور آپ جیسے بیس کروڑ عوام ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ عوام اپنے ملک سے لاتعلق کیوں ہیں؟ بے حسی اور جمور کا شکار کیوں؟ بھلا کون اپنے گھر سے غافل رہ سکتا ہے، معذرت کیساتھ لگتا کچھ یوں ہے کہ ہم کرائے کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ کیا خوب کہا ہے افتخار عارف نے
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے