پارلیمنٹ ہاؤس کا گیٹ نمبر ایک

پارلیمنٹ ہاؤس کا گیٹ نمبر ایک قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیشنز کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے بھرا ہوتا ہے۔۔ سردی گرمی دھوپ بارش سے بےنیاز رپورٹرز اور کیمرہ مین اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہیں۔۔ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت گیٹ نمبر ایک سے گزرتی ہے صحافی حکومتی اور اپوزیشن کے نمائندوں سے سوال کرتے ہیں اس سے جہاں سیاسی یا سماجی مسائل کے حوالے سے عوامی نمائندوں کی رائے جاننے کا موقع ملتا ہے وہاں ہی ان اراکین پارلیمنٹ کے عمومی رویوں کو بھی جاننے کا موقع ملتا ہے۔۔

جیسے پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی مینرز کا خیال رکھتے ہیں بلاتفریق ہر چھوٹے بڑے چینل سے بات کرتے ہیں اگر وقت کی کمی ہو تو اس طرح معذرت کر کے گزرتے ہیں کہ کسی کو برا نہ لگے وہاں ہی پی ٹی آئی کی عائشہ گلالئی ہیں محترمہ دو سال پہلے تک خود میڈیا سے بات کرنے کو بےتاب نظر آتی تھی لیکن اب مزاج برہم نہ ہو تو بات کرنا پسند کرتی ہیں ورنہ ادائے بےنیازی سے گزر جاتی ہیں۔۔ ان سے بھی برے حالات مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی ماروی میمن کے ہیں جن کے نخرے آسمان کو چھوتے ہیں اور وہ رکنا تو دور کی بات دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ اب صحافیوں کے لیے ان کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔۔ کئی اراکین ایسے بھی ہیں جو اپنے چٹکلوں سے رپورٹ کو دلچسپ کر دیتے ہیں جیسے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور مسلم لیگ ن کے میاں عبدالمنان اور بات کی جائے سینیٹر مشاہد اللہ کی تو ان کے تو کیا ہی کہنے موقع کی مناسبت سے شعر سنا کر محفل لوٹ لیتے ہیں۔۔۔ ایک بات ماننا ہو گی کہ گفتگو کا اصل سلیقہ پیپلزپارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کو ہے جیسے سینیٹر رحمان ملک، روبینہ خالد، نفیسہ شاہ، سلیم مانڈوی والا، سعید غنی ٹو دا پوائنٹ بات کرتے ہیں اور ہر موضوع پر گرفت رکھتے ہیں۔۔ انہی میں سینیٹر شیری رحمان بھی ہیں جن کو گفتگو کا سلیقہ تو بہت ہے مگر وہ ترجیح دیتی ہیں کہ بڑے چینلز سے گفتگو کریں۔۔ ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ بےحد خوش اخلاق بھی ہیں اور مینرز کا خیال رکھنے والے لوگ ہیں ثمن جعفری، علی رضا عابدی، طاہر مشہدی، ڈاکٹر فوزیہ، شیخ صلاح الدین سبھی مہذب انداز میں گفتگو کرتے ہیں اپنی رائے دیتے ہیں۔۔ کبھی کبھار جب بہار کا ذکر ہو چودہ اگست پر ملی نغموں کی فرمائش ہو تو ایسے میں مسلم لیگ ن کے رامیش کمار کبھی مایوس نہیں کرتے خوبصورت ملی نغمے اور بہار کے گیت سنا کر وہ بھی رپورٹ کی شان بڑھا دیتے ہیں۔۔

مولانا فضل الرحمان کو دیکھتے ہی سبھی صحافی دوڑ تو ضرور لگاتے ہیں مگر مولانا صاحب بات شازونادر ہی کرتے ہیں۔ اے این پی کے غلام بلور سینئیر سیاست دان ہونے کے باوجود بےحد عاجز انسان ہیں بےحد شفقت سے بات کرتے ہیں اور سب سے نرمی سے گفتگو کرتے ہیں۔۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی عائشہ سید بےحد نفیس خاتون ہیں اپنا، واضح موقف دوٹوک انداز میں پیش کرتی ہیں۔

پی ٹی آئی کے علی محمد خان، اسد عمر مسلم لیگ ن کے عبدالقادر بلوچ، سائرہ افضل تارڑ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق وغیرہ موڈ اچھا ہونے پر ساٹ دیتے ہیں۔۔

پارلیمنٹیرین آتے جاتے رہتے ہیں اچھے برے خوش اخلاق بدمزاج بھانت بھانت کی اقسام کے یہ عوامی نمائندے آخر میں اپنی کوریج کے لیے میڈیا کی نظرکرم کے ہی محتاج نظر آتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ جب عام الیکشن کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں اور اب اپنے موقف دینے کے لیے میڈیا کی ضرورت بھی پڑنے والی ہے تو صحافی بھی ان اراکینِ پارلیمنٹ کے سابقہ رویوں کو یاد رکھیں جنہوں نے چار سال اپنے عہدے کے زعم میں گزار کر گیٹ نمبر ایک پر ڈیوٹی کرنے والے صحافیوں کو اگنور کیا اب اس آخری پارلیمانی سال میں ان کو بھی بالکل ویسے نظرانداز کریں کیونکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے