فوجی حکام لورالائی کینٹ میں 34 خاندانوں کو رہائش سے محروم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔سینٹ آف پاکستان

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آج فوجی حکام سے کہا ہے کہ لورالائی کینٹ میں 34سویلین خاندانوں کو ان کی رہائش سے محروم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ یہ مسئلہ گزشتہ سال دسمبر میں سینیٹر سردار اعظم خان موسی خیل اور عثمان خان کاکڑ نے اٹھایا تھا جسے قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سپرد کر دیا گیا تھا۔

آج کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کی جبکہ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمزی ، مولانا عطاء الرحمن اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے شرکت کی۔ ان کے علاوہ وزارت دفاع اور سینیئر افسران کے ساتھ سیکریٹر دفاع اور لورالائی کینٹ کے اسٹیشن کمانڈر بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔

اس مسئلے کے دونوں محرک اپنی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالرحیم مندوخیل کی وفات کی وجہ سے موجود نہیں تھے لیکن متاثرہ خاندانوں کے چند لوگ موجود تھے۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری زمین پر گھر بنائے گئے تھے جو مقامی اسٹیشن کمانڈر کے زیر انتظام تھے۔ ان گھروں میں ایف سی اور لورالائی اکاﺅٹس کے افراد کے علاوہ چند سویلین بھی ایک معاہدے کے تحت رہائش پذیر تھے جس پر مارچ 1999ءمیں دستخط ہوئے تھے۔

حال ہی میں 34سویلین خاندانو ں کو مبینہ طور پر غیرقانونی اور غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گھر خالی کرنے کے لئے کہا گیا۔ متاثرہ خاندانوں کے احتجاج اور سینیٹ میں درخواست کرنے کے بعد زیر بحث آیا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مارچ 1999ءکے معاہدے کو پڑھتے ہوئے یہ کہا کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ کسی بھی وجہ سے اسٹیشن ہیڈکوارٹر رہائشیوں کو گھر خالی کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ اگر کچھ رہائشیوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف عدالتوں میں قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

کنٹونمنٹ بورڈ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ رہائشیوں پر الزام لگا کر انہیں گھر خالی کرنے کے لئے کہہ دے۔ گھر خالی کرنے کا حکم نہ ہی قانونی اور نہ ہی معاہدے میں درج ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرنا ہے اور اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ رہائشیوں سے گھر خالی کراکر انہیں گرانا صرف اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے اور بدنام زمان ایف سی آر کے تحت قبائلی علاقوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ اب اس کو مثال بنا کر فوج حکام کنٹونمنٹ کے اندر بھی ایسا کریں تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کینٹ بورڈ کو قانون کے مطابق چلنا ہوگا اور انہیں وکیل، جج اور جیوری کے اختیارات نہیں دئیے جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پہلے ہی ریاست سے لاتعلقی کا احساس پایا جا تا ہے اور اس اقدام سے ان کے زخم مزید گہرے ہو جائیں گے۔

انہوں نے یاددلایا کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی اس وقت حیرت زدہ ہو گئی تھی جب اسے بتایا گیا کہ بلوچستان میں 51تشدد زدہ لاشوں کا کوئی بھی رشتہ دار ایف آئی آر درج کرانے پولیس کے پاس نہیں گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نظام پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور وہ ریاست سے لاتعلق ہوگئے ہیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ خدا کے لئے کوئی اور ایسا کام نہ کیا جائے جس سے عوام کا یہ احساس لاتعلقی مزید شدید ہو جائے۔ جواب دیتے ہوئے سیکریٹری دفاع نے کہا کہ وہ یہ معاملہ متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھائیں گے اور ان سے اپیل کریں گے کہ رہائشیوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ شکایت بھی کی کہ پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود انہیں ابھی تک وزارت دفاع سے متعلق پارلیمنٹ کے ایکٹس کے رولز اور ریگولیشن کی نقول مہیا نہیں کی گئیں۔ انہوں نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ انہیں یہ نقول کیوں مہیا نہیں کی جا رہیں جو کہ پبلک دستاویزات ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نے سیکریٹری دفاع کو ہدایت کی کہ وہ مطلوبہ رولز اور ریگولیشنز کی نقول فراہم کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے