ڈاکٹر عتیق الرحمن کے جواب میں

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیاسی و سماجی امور اور معاملات میں ہر شخص کو قلم اور بیان کے ذریعے اپنی رائے اظہار کرنے کا حق حاصل ہے، البتہ اہل علم ,ڈاکٹرز، محققین،مفکرین و…سے لوگ یہ توقع رکهتے ہیں کہ اہل دانش ہونے کے ناطے وہ اپنی رای کو دوسروں تک پہنچانے سے پہلے حق اور باطل کے معیار پر تولنا ہرگز فراموش نہ کریں- علمی دنیا میں وہ آراء اور نظریات قیمتی ہوتے ہیں جو انسانی فطرت ، منطق، عقل اور اخلاقی اصولوں کے منافی نہ ہوں- اظہار رائے کی آزادی کامطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان جوبهی اپنے ذہن میں آئے اس کا اظہار کرے- اس کا نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کا نقصان قطعی ہے- اظہار رای کرنے کا مقصد دوسروں کی راہنمائی کرنا ہے- دوسروں کو اشتباہات کی جانب متوجہ کرانا ہے، اگر کوئی سیاسی اور سماجی شخصیت اجتماعی مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیں تو اسے روکنا ٹوکنا ہے-

اگر کوئی غلط افکار کی ترویج کرے تو اسے روکنے کے لئے متبادل درست افکار کی نشاندہی کرانا ہے- مگر آج کل سوشل میڈیا پر پڑها لکها طبقہ بالخصوص بہت سارے اہل قلم اظہار رای کے نام پر بے بنیاد اور غیر حقائق باتیں لکهہ کر عوام الناس کو گمراہ کرکے لذت محسوس کرتے ہیں، نہ وہ قلم کی حرمت کا خیال رکهتے ہیں اور نہ ہی عوام گمراہی کے عواقب بد سے کوئی خوف محسوس کرتے ہیں- وہ بغیر کسی تحقیق کے اپنے نظریاتی حریف یا اپنے غیر مسلک افراد کی توہین اورتذلیل کرنے میں اپنی عزت تلاش کرتے ہیں – بدون تردید ایسے افراد اہل علم کے ماتهے پر بدنماداغ ہیں- ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ کے لئے اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلینا چاہئے کہ عصبیت ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو اچھی بھلی سوچ و عقل کے انسان کو انتشار کا شکار بنادیتی ہے کہ وہ حق بات بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتا-

اس تمہید کے بعد قارئین کی خدمت میں چند دن پہلے آئی بی سی اردو اخبار میں جناب ڈاکٹر عتیق الرحمن صاحب کے شائع شدہ آرٹیکل کا جواب ان کی تحریر کے اہم حصوں کے ذیل میں پیش کررہا ہوں انہوں نے اپنی تحریر کے آغاز میں لکها ہے

(مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ دنیا کی ۲۰۰ اقوام کے ساتھ تعلقات کو ہم مذہب کے تناظر میں نہیں دیکھتے، لیکن دو ممالک کا معاملہ آئے تو ہمیں ساری مذہبی تعلیمات یاد آجاتی ہیں۔)

ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مجهے آپ جیسے پڑهے لکهے ڈاکٹر کے یہ لکهنے پر حیرت کی انتہا نہ رہی پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب عالی کیسے فرمارہے ہیں؟ دنیا کی دوسری اقوام کے ساتهہ تعلقات کو مسلمان مذہب کے تناظر میں نہیں دیکهتے ہیں- یہ صرف ایک تہمت ہے، واقعیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں- ہر مسلمان اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حدود کا تعین کرکے دوسروں کے ساتهہ تعلقات استوار کرتے ہیں- دوسری بات یہ ہے کہ جناب عالی کی یہ بات دلیل سے عاری ہے- اہل علم کے ہاں وہ بات قابل قبول ہوتی ہے، جو محکم دلیل کے ساتهہ لکهہ دیں- بصورت دیگراس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی-

اس کے بعد انہوں نے سرزمین حجاز پرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرتپاک استقبال کے دوران خادم الحرمین نے اس کی اہلیہ کے ساتهہ مصافحہ کرکے جو خلاف شریعت ذلت آمیز حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں ان کی اس قبیح حرکت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے لکها ہے ( ہمیں مذہب کی یہ تعلیم تو یاد رہتی ہے کہ خاتون سے مصافحہ جائز ہے یا ناجائز، لکن یہ یاد نہیں رہتا کہ ایک مسلمان ملک کے خلاف ایک ہندو ملک سے دفاعی معاہدات کرنا اور لاجسٹکس کو باہم شیئر کرنے کا عہدوپیمان کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔) اس کے جواب میں اتنا لکهنا کافی ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب ” آپ لاکهہ بهی تاویل کریں خادم الحرمین کے اس برے اقدام کی قباحت اب چهپنے والی نہیں، اسے پوری دنیا دیکهہ چکی ہے اور سارے مسلمانوں کے دل خون ہوچکے ہیں – ہاں صرف ایک بات ہے اگر واقعی اس گناہ پر وہ دل سے پشیمان ہوکر اللہ تعالی کی بارگاہ میں رجوع کریں، توبہ کریں تو شاید خدا ان کی توبہ قبول کرے چونکہ خدا ارحم الراحمین ہے-

ڈاکٹر صاحب! جس سرزمین پر آل سعود کی حکومت قائم ہے یہ خطہ زمین پر سب سے زیادہ مقدس اور بااہمیت ہے اللہ تعالی نے حجاز کو امت مسلمہ کی قیادت اور تمام بشریت کی مرکزیت کے لئے چنا ہے اسے محل نزول وحی قرار دیا ہے اور خاتم النبین (ص) کے ذریعے اپنا کامل دین یہیں پر اتارا ہے تاکہ اس سرزمین سے تمام دنیا میں نور ہدایت پهیلے ظلمتوں اور تاریکیوں کو ختم کرکے سعادت ونجات کی روشنیوں سے اجالا کرے منتشر پراکندہ اور متفرق گروہوں اور قبیلوں کو تفرقے کی بهٹی سے نکال کر وحدت کی لڑی میں پروئے- اسلام کے ظہور سے پہلے حجاز کی تاریخ کو عصر جاہلیت کہاجاتا ہے اللہ نے اپنے کلام پاک میں نومسلم عربوں کو خطاب کرکے فرمایا مبادا” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد تم اپنی حالت سابقہ پر پلٹ جاو, وحدت کے بجائے تفرقہ، محبت کے بجائے نفرت، صلح کے بجائے جنگ، اخلاق کے بجائے بدتمیزی، شجاعت کے بجائے بزدلی ،بصیرت کے بجائے جاہلیت اور آزادی کے بجائے غلامی کی طرف پلٹ جاو- مگر بنو امیہ نے اس سرزمین کی قداست کی بے حرمتی کا آغاز کیا جسے بنو عباس اور بعد میں دوسرے آنے والی نسلوں نے جاری رکها آل سعود نے تو اس خطے کے تقدس کی پائمالی کو انتہا تک پہنچادیا-

اور دوسرے مطلب کا تعلق بهی تہمت سے ہے- جناب ڈاکٹر صاحب ! کسی پر تہمت لگانا گناہ کبیرہ ہے جس کا عذاب سنگین ہے- ایران نے آج تک کهبی کسی مسلمان ملک کے خلاف ہندو ملک سے دفاعی معاہدہ نہیں کیا ہے اور نہ آئندہ وہ ایسا کرسکتا ہے، اس لئے کہ ایران میں سعودی عرب کی طرح بادشاہی وغیر جمہوری حکومت نہیں ، بلکہ ایران کی حکومت عوامی ہے- جمہوریہ اسلامی ہے – یہاں نظام ولایت فقیہ کے زیر سایہ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں- ایران میں عادل فقیہ زمان شناس اتحاد مسلمین کے علمبردار بت شکن امام خمینی (رح) کے نائب خاص عادل فقیہ برسر اقتدار ہیں-

ایران اس وقت دنیا کا وہ واحد ملک ہے, جو ام الفساد امریکہ اور اس کا نمک خوار اسرائیل کی آنکهوں میں آنکهیں ڈال کر بات کرتا ہے- امریکہ اور ایران کی دشمنی کسی پر ڈهکی چهپی نہیں، ایران امریکہ واسرائیل کے ساتهہ دشمنی رکهنے کی بنیادی وجہ اسلام اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، دنیا کے بالخصوص فلسطین, یمن اور شام کے مظلوم مسلمانوں پر امریکہ واسرائیل کے ڈهائے جانے والے مظالم ہیں، تو کیسے ایران اپنے مسلمان ملک کے خلاف جاکر ایک ہندو ملک سے معاہدات کرنے کی جرات کرسکتا ہے- ڈاکٹر صاحب ضرور اس پر نظر ثانی کریں –

پهر ڈاکٹر صاحب نے لکها ہے ( بات سادہ سی ہے، اگر آپ سعودی عرب کے حکمرانوں کو خلافت راشدہ کے معیار پر جانچنے کی کوشش کریں گے تو یہ ذرے کا آفتاب سے موازنہ ہوگا۔ اگر آپ ان کے طرزحکومت کو شریعت کے ترازو پر تولنے کی کوشش کریں گے تو اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ سعودی حکمرانوں کے بہت سارے اقدامات شریعت مطہرہ اور سلف صالحین کے طرزعمل سے یکسر متضاد ہیں۔) بالکل یہ مسلمہ حقیقت ہے جناب ڈاکٹر صاحب سے صد در صد اتفاق کرتا ہوں ہم مسلمان ہونے کے ناطے شریعت مطہرہ اور سلف صالحین کے طرز عمل کے مطابق ہر چیز کو از جملہ حکمرانوں کے اقدامات اور طرز حکومت کا جانچنا ضروری ہے-

اس کے بعد انہوں نے لکها ہے ( یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن ایک وہ حکومت جو ساری دنیا میں سے پاکستان کو لیڈرشپ کیلئے منتخب کرتی ہے اور ایک وہ حکومت جو پاکستان کے اندر گھس کر مارنے کی بات کرتی ہے) جناب ڈاکٹر صاحب ! میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ پاکستان کے لئے نہ صرف اعزاز نہیں بلکہ رسوائی ہے- اس لئے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں مختلف ممالک کا جو اتحاد تشکیل پایا ہے، جس کی قیادت کے لئے ہمارے سابقہ جنرل راحیل صاحب کو چنا گیا ہے، وہ اتحاد مسلمانوں کے دفاع کے لئے نہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرے گا، اس اتحاد کا اصل ہدف ہمارا ہمسایہ ملک ایران کے خلاف کام کرنا ہے – یمن اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جاری مظالم میں اضافہ کرنا ہے- میں سمجهتا ہوں ہمارے سابقہ جنرل کو سعودی عرب نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے قربانی کا بکرا بنایا ہے-

ہاں یہ اتحاد اگر واقعی اسلامی ہوتا ، مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لئے بنا ہوا ہوتا تو یقینا جنرل راحیل کی قیادت ہمارے لئے باعث فخرومسرت ہوتی- تحریر کو آگے بڑهاتے ہوئے انہوں نے اگلا جملہ یہ لکها ہے (ایک وہ حکومت جو پاکستان کے ۳۵ لاکھ لوگوں کو روزگار مہیا کرتی ہے دوسری وہ جو پاکستانی مزدوروں کو پکڑ کر قتل کرتی ہے،) جناب ڈاکٹر صاحب؛ پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے 35 لاکهہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا تو دور کی بات ہے خود سعودی عرب میں روزگار کی تلاش میں گئے ہوئے افراد کے ساتهہ جو ظالمانہ سلوک سعودی حکومت کررہی ہے وہ کسی پاکستانی پر مخفی نہیں- بالفرض اگر جناب عالی کی اس بات کو درست مانیں-

ڈاکٹر صاحب ! آپ روزگار کے علاوہ پاکستانی لوگوں کو سعودی عرب نے تحفے میں دی ہوئی ساری چیزوں کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے ہیں میں آپ کو بتاتا ہوں سعودی عرب نے پاکستان کو کیا دیا؟ سعودی عرب نے پاکستان میں تکفیری سلفی فطرت انسانی اور انسانیت کے خلاف خشک عقیدہ کی ترویج کرکے طالبان اور داعش جیسی شدت پسندی تنظیموں کو پروان چڑهایا ، انہیں سالانہ کروڑوں ڈالرز کے فنڈز دے کر دہشتگردی کو تقویت فراہم کیا ، بہت سارے اسلام کی تعلیمات سے نابلد مولویوں کو سعودی ریال دے کر خریدا اور ان سے مسلمانوں کی تکفیرکے فتوے نکلواکر بہت سارے مظلوم مسلمانوں کو خون ناحق میں نہلایا- آج پاکستان کی جگہ جگہ تکفیری اور سلفی ہمفکر افراد نے لوگوں کا جینا حرام کررکها ہے –

ڈاکٹر صاحب! پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے دہشتگردی کے واقعات ؛ چاہیے پشاور آرمی سکول کے نونہالوں پر ہونے والا حملہ ہو یا سهیون شریف وپاراچنار میں پے درپے ہونے والے دهماکے- گلگت بلتستان کے راستے میں مسافرین کی گاڑی روک کر مسلمانوں کو شناختی کارڈ چیک کرکے ذبح کرنے کا دلسوز واقعہ ہو یا پاکستان میں باصلاحیت افراد ڈاکٹرز اور صحافیوں کو چن چن کر صفحہ ہستی سے اٹهانے کی بزدلانہ حرکت – آپ ذرا غور کرکے بتائیے کہ ان تمام دہشتگردی کے واقعات کے ماسٹر مائینڈ کون لوگ تهے اور واقعات کی ذمہ داری افتخار کے ساتهہ کون قبول کرتے آرہے ہیں یہ اہل دانش وبینش پر پوشیدہ نہیں- پاکستانی مسلمانوں کے لئے مادی مفادات سے کہیں زیادہ اسلام ناب محمدی کی تعلیمات اہم ہیں-

پهر ذرا آگے جاکر انہوں نے لکها ہے. (اگر ہمارے پاس اس بات کا ٹھیکہ ہیکہ پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں اور مذہبی پولیس کا کردار ادا کریں تو پھر دولت اسلامیہ طرز کا ایک گروپ بنا لیجئے) ان جملوں کو لکهہ کر جناب ڈاکٹر صاحب” آپ نے اسلام کے بانی هادی برحق حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم کی 23سالہ محنتوں، اولیآء کرام، نیک اصحاب رضوان اللہ علیهم کی کوششوں اور ان کی راہ پر چلتے ہوئے دن رات دین مقدس اسلام کی تبلیغ وترویج کرنے والے علمآء حقہ کی زحمتوں پرسوال اٹهایا ہے -کیا آپ یہ بهول گئے کہ مسلمانوں کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک امر بالمعروف ونہی از منکر کرنا ہے ، ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی استطاعت، استعداد اور صلاحیت کے مطابق دین مبین اسلام کو پوری دنیا میں پهیلانے کی کوشش کریں –

آخر میں تمام مسلمانوں سے یہی عرض کروں گا کہ سعودی عرب اور ایران دونوں مسلمان ملک ہیں آنکهیں بند کرکے اندہی محبت کا مظاهرہ کرتے ہوئے نہ ایران کی طرفداری کرنا عقلمندی کا تقاضا ہے اور نہ ہی سعودی عرب کی- اسلام میں حق اور باطل کا معیار مشخص ہے حق اور باطل کے ترازو میں تول کر اہل حق کی حمایت اور اہل باطل سے نفرت کرنا عین دانشمندی ہے ہماری صلاح اور فلاح اسی میں پوشیدہ ہے اندہی محبت انسان کو گمراہ کرتی ہے خدا ہم سب کو حق گوئی اور حق وحقیقت لکهنے کی توفیق دے (آمین )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے