فروٹ بائیکاٹ- میں اس سال انجیر کا درخت لگاوٗں گا

فروٹ بائیکاٹ مہم ضرور کامیاب ہوگی اور میرے مشاھدے کے مطابق یہ مہم ھر سال چلتی ہے، غیر اعلانیہ، اور ھر سال کامیاب رہتی ہے- وہ اس طرح کہ ماہ رمضان کے پہلے ہفتے کے دوران صارفین فروٹ کی قیمت پوچھتے ہیں، اس آس میں کہ خرید لیں گے، اگلے ہفتے قیمت پوچھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور فروٹ کی ریڑھی سے ذرا دور ہی گزرتے ہیں- معاشی نظام پیغام اگے دھکیلتا ہے اور اگلے چند دن میں قیمتیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں-
فیس بک پہ اس بائیکاٹ کی حمایت میں بھی بہت کچھ پڑھا اور مخالفت میں بھی، لیکن فقیر دیگر کئی مسائل کی طرح اس مسئلہ پہ بھی کوئی دو ٹوک رائے ترتیب نہ دے سکا-
لیکن شروع دن سے جو بات میرے ذھن میں آرہی، وہ یہ ہے کہ قوم کو اجناس کی پیداوار بڑھانے کی طرف راغب کیا جائے- اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ذرخیز زمینیں تیزی کے ساتھ رھائشی مقاصد کیلئے استعمال میں لائی جارہی ہیں، جس سے مستقبل میں فروٹ سمیت تمام زرعی اجناس کی پیداوار پر اثر پڑ سکتا ہے اور ھمارے ملک میں طلب کی کیفیت دیکھتے ہوئے با آسانی کہا جاسکتا ہے کہ پیداوار کم ہونے سے قیمتیں بڑھیں گی-
اب فیس بک پہ قوم کو یہ مشورہ دینا کہ ملکی زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے فلاں فلاں منصوبے شروع کئے جائیں، شاید زیادہ فائدہ مند نہ ہو، لیکن ایک گھریلو سطح پر قابل عمل اقدام یہ ہوسکتا ہے کہ ہمیں اپنے گھر کے آس پاس جتنی جگہ میسر ہے، اس میں فروٹ اور دیگر درخت اور کچھ سبزیاں کاشت کریں- آپ جانتے ہوں گے کہ گھر کے سامنے پانچ ضرب دس فٹ کی جگہ میں اتنی سبزی اگائی جاسکتی ہے کہ چھوٹے گھر کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے، ٹماٹر پیاز بے شک بازار سے آئے لیکن بھنڈی توری، دھنیا پودینہ قسم کی سبزیاں کافی مقدار میں اگائی جاسکتی ہیں- اس طرح ایک آدھ پودا فروٹ کا لگایا جاسکتا ہے- ھمارے آبائی ضلع دیر میں ابھی تک رواج ہے کہ گھر کے سامنے کئی قسم پھلوں کے پودے لگائے جاتے ہیں- مہمان آتے ہیں تو کسی نہ کسی پھل کا موسم چل رھا ہوتا، چھوٹے کو بھیج کر تازہ پھل تڑوایا جاتا اور مہمان کو پیش کیا جاتا ہے- انجیر ایک انتہائی قیمتی پھل ہے اور ملک کے تقریبا” ھر حصے میں اگایا جاسکتا ہے- جس پھل کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے، ھمیں پورے سال میں ایک دفعہ بھی دستیاب نہیں- اسلام آباد میں ھر گھر کے سامنے اور گرین بیلٹس پر اور برساتی نالوں کے کنارے اتنے پھل اگائے جاسکتے کہ یہاں سے دوسرے شہروں میں بھیجے جاسکیں گے- ایک مرتبہ سی ڈی اے کے ایک کنسلٹینٹ بتا رہے تھے کہ انہوں نے کئی بار حکام بالا کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ دارالحکومت کی اتنی فراخ زمینوں میں فروٹ کے پودے کیوں نہیں لگائے جا رہے، انکا کہنا تھا کہ انہیں تلاش بسیار کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں ملا- پھر میں نے اور اس افسر نے پھلوں کے پودوں کی ماحولیات، سماجیات، انسانیات وغیرہ اصطلاحات کیلئے ممکنہ نقصانات پر کافی مغز کھپائی کی لیکن نالائق ٹہرے-
مردان میں آج سے دس پندرہ برس پہلے آلوچہ، خوبانی، امرود، جاپانی پھل وغیرہ کے بیسیوں باغات تھے اور بڑے پیمانے پر گرما اگایا جاتا تھا- آج کسی سے پوچھیں نا کہ آلوچہ کا پھول کس رنگ کا ہوتا ہے؟
غالبا” جاوید چوہدری کے کالم میں یا کسی اور کالم میں پڑھا تھا کہ کالم نویس ازبکستان گیا تھا- وھاں ھر گھر کے سامنے پھلوں کے درخت تھے- بتا رہے تھے کہ ان کے میزبان پاکستان میں رہے تھے- کالم نویس کہہ رہے تھے کہ ان کے ازبک میزبان سارا دن ان پر چیختے رہے کہ پاکستانی قوم بہت عیاش ہے، یہ لوگ اپنے گھروں کے سامنے پھلوں کے درخت کیوں نہیں اگاتے- ان ازبک کے بقول پاکستان میں دیہاتوں میں اور شہروں میں نئی بننے والی ھاووسنگ سوسائٹیز میں گھروں کے سامنے اتنی بڑی بڑی جگہیں ہوتی ہیں کہ ازبک صرف سوچ سکتے لیکن وہ ازبک اس بات پر تپے ہوئے تھے کہ پاکستانی لوگ اللہ کی اس فراواں نعمت کی قدر نہیں کرتے-
پیداوار کے سلسلے میں ترسیل کا معاملہ بھی زیر نظر رہے- افغانستان دنیا کا بہترین فروٹ باسکٹ ہے لیکن پوری دنیا ملکر اسے تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی- اس خطے میں اجناس کی فراوانی کیلئے جنگیں سمیٹنا بھی انتہائی اھم ہے- امن خوشحالی و فراوانی کی اوولین طلب ہے-
قصہ مختصر، بائیکاٹ بھی سر آنکھوں پر، اور بائیکاٹ کی مخالفت بھی خوش آمدید، لیکن اس مہم کے اھداف دیرپا طور پر حاصل کرنے کیلئے پیداوار بڑھانے کی مہم بھی چلائیں- اس سٹیٹس کا مقصد واضح ہے- اس سلسلے میں خود ہی سلائیڈز بناکر شئیر کریں اور اس مہم کو آگے بڑھائیں-
پس نوشت: میرے گھر کے سامنے ایک پودا لگانے کی گنجائش ہے اور میں آپ کی طرح ایک عرصہ سے سوچ رھا ہوں کہ وھاں کچھ اگاووں لیکن بے روزگاری سے فرصت نہیں ملتی- تاھم میں پکا وعدہ کرتا ہوں کہ رمضان کریم کے بعد برسات کا موسم شروع ہوگا تو بشرط زندگی و رضائے الہی میں اس جگہ انجیر کا پودا کاشت کروں گا-انشاء اللہ،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے