وزیراعظم کو جے آئی ٹی کا بلاو‌ا

پانامہ کیس آخری مراحل میں ہے ۔جے آئی ٹی روزانہ کی بنیادوں پر کام کر رہی ہے ،حکمران خاندان کے افراد باری باری جے آئی ٹی کے سامنے کرپشن الزامات پر تفتیشی مراحل سے گزر رہے ہیں ۔جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران حسین نوازکی ایک تصویر کو میڈیا کی زنیت بنایا گیا، تصویر سے شریف خاندان کی تضحیک کرنا تھی یا ہمدردیاں سمیٹنا ،تصویر کیونکر لیک ہوئی ،کس نے لیک کی ۔فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ، سپریم کورٹ نے اس پر نوٹس لے لیا ہے ۔

جیسے ہی حکمران خاندان کا کوئی فرد جے آئی ٹی کے سامنے پیشی بھگتنے کے بعد واپس آتا ہے ،میاں نوازشریف کا’’ جی جی برگیڈ‘‘حکمران خاندان کو زم زم سے دھلا ثابت کر رہا ہوتا ہے اور اپوزیشن کے خوب لتے لے رہا ہوتا ہے ،وہ یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓکے بعد اسی خاندان کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوکر اپنا حساب کتاب دے رہا ہے مگر جی جی برگیڈ کو عوام کے سامنے یہ بات بھی رکھ دینی چاہیے کہ عدالتوں پر چڑھائی اور دھمکیاں عمرؓکے کسی وزیر مشیر نے نہیں دیں۔ یہ عظیم سعادت بھی ہمیں نصیب ہوئی ۔

اداروں کی تضحیک کے حوالے سے شریف خاندان کا ماضی روشن نہیں ،شریف خاندان کو جب یہ ادراک ہوتا ہے کہ اداروں سے بچنا محال ہے تو اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے لاؤ لشکر سمیت دھاوا بول دیتے ہیں ،لفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک جن کا شمارمیاں نواز شریف کے قریبی رفقاء میں ہوتا تھا ، اپنی کتاب ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1996,97میں وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی ،حکومت نے ججوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا ، انھوں نے سپریم کورٹ کے جج اجمل میاں کی سربراہی میں باقی ججوں کو اکٹھا کر کے جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف سنیارٹی اور چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری کے خلاف مہم چلائی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلم لیگی ارکان کی طرف سے سپریم کورٹ پر دھاوا بولا گیا اور ایسا حکمرانوں کی آشیرباد سے ہی ممکن ہوا ۔

حسین نواز کی طرف سے یہ بیان کہ ’’حسین شہید سہروردی سے لے کر آج تک ہمارے خلاف ہی سب کچھ ہوتا آیا ہے ‘‘جو انھوں نے یکم جون 2017کو مشترکہ تحقیقیاتی ٹیم اسلام آباد کے سامنے اپنی تیسری پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران دیا ،جب وہ یہ بیان دے رہے تھے تو بھول گئے کہ میاں نواز شریف کا دوسرا دور حکومت جس میں سینیٹر سیف الرحمان کو احتساب کا چیئرمین اس لیے بنایا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بے رحم احتساب شروع کیا جائے ،سینیٹر نے پی پی قیادت کے خلاف بے رحم احتساب شروع کیا تو لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے اور انھیں سنیٹر احتساب کے نام سے جاننے لگے ،میاں نواز شریف کے اسی دور حکومت میں سابق صدر زرداری کے خلاف سائیکل چوری کا مقدمہ درج ہوا جو اپنی نوعیت کا واحد مقدمہ تھا ۔احتساب کا ڈھول ہر
حکومت نے پیٹا مگر ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر اسے بند کرنا پڑا ۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا ممکن نہیں ہوا کہ قائد ایوان تو کجا کوئی عدالتی اور حکومتی مشینری طاقتور لوگوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتی، اس لیے اس کا سیاسی اور سماجی مرتبہ آڑے آ جاتا اور راستے کی دیوار بن جاتا، ایک مشہور قول ہے کہ ’’اللہ تعالی کفر کی حکومت تو گوارا کر لیتا ہے مگر ظلم کی ہر گز نہیں ‘‘اور ظلم ظاہر ہے عدل کی ضد ہے، نوشیران کی شہرت تاریخ میں ایک عادل حکمران کی ہے اور حضور اکرمﷺ اس امر پر اظہار فخر فرماتے تھے کہ میں ایک عادل حکمران کے دور میں پیدا ہوا ہوں ،لیگی کارکنان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ بادشاہ سلامت نے اپنے خاندان کو عدالتی کہٹرے میں کھڑا کر کے دور خلافت کی یاد تازہ کر دی ،یہ کوئی انہونی نہیں حکمرانوں کے دامن پر کرپشن کے دھبے لگیں تو انھیں ان دھبوں کو صاف کرانے کے لیے عوامی اور عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے

المیہ مگر یہ ہے کہ لیگی قیادت جب یہ محسوس کرتی ہے کہ اداروں سے ان کا بچ نکلنا محال ہے تو وہ کارکنان کے ذریعے ان سے الجھ پڑتے ہیں یا پھر انھیں متنازعہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ،کمزور جان سینیٹر نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اگر جے آئی ٹی نے حکمرانوں کے خلاف فیصلہ صادر کیا تو سب اچھا نہیں ہو گا ۔حکمت عملی اور موقع پرستی میں بھی دیکھنے کو کوئی فرق واضح نہیں ہوتا ،دونوں کیفیتیں وقت کا تقاضا ہوتی ہیں لیکن یہ تقاضا حصول مقصد کے لیے پورا کیا جائے تو حکمت عملی اور اگر حصول مطلب کے لیے ہو تو کھلی موقع پرستی ن لیگ حصول مطلب کے لیے سب کچھ کر رہی ہے اور وہ موقع پرستی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔ نہال ہاشمی کے ذریعے سب کچھ حاصل کرنے کا حربہ اختیار کیا گیا ۔

حکمرانوں کو صبر و تحمل کا دامن ہر گز ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے ،انھیں عدالتوں کا سامنا بہادری سے کر نا چاہیے ، اپنے اوپر لگے ہوئے کرپشن کے الزامات کا دفاع مناسب دلائل کے ساتھ کر نا چاہیے ،شریف خاندان اقتدار میں ہے ، انھیں اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے ، نواز حکومت نے پیپلز پارٹی کی نسبت اپنے دور اقتدار میں اچھے کام بھی کیے ، انھوں نے اقتدار میں آ کر بجلی کے کئی منصوبے لگائے اور ان پر تیزی سے کام جاری ہے ۔لوڈشیڈنگ پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے ،کرپشن کا لیول کم تو نہیں ہوا مگر کرپشن ہوتے ہوئے بھی زمین پر کام بھی نظر آ رہے ہیں ۔

فوج کے ساتھ نواز شریف کے معاملات درست نہیں تو اتنے خراب بھی نہیں کہ فوج انھیں اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینک دے ،انھوں نے کمال ہوشیاری سے فوج کو سی پیک میں انگیج کر لیا ، اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں کے مترداف خاکی بھی مطمئن ہیں ،اپوزیشن کو خطرہ ہے کہ نواز شریف کو اگر اب نہ ہٹایا تو اگلی باری بھی نواز کو ملے گی ، آج نواز شریف اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہیں تو وہ انتخابات میں باآسانی کامیابی حاصل کر لیں گے، اپوزیشن کو ادراک ہے کہ اگر یہاں نواز شریف کو نہ ہٹایا نہ تو اگلے پانچ سالوں میں ان کا اقتدار میں آنے کا خواب کو تعبیر نہیں ملے گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے