وہی گلشن،وہی طرز فغاں

نئے پاکستان کی تعمیر اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے ۔کرپشن کے خاتمے ،قانون کی بالادستی ،شفاف انداز حکمرانی،بے لاگ احتسابی عمل اور بوسیدہ سسٹم کی از سر نو تعمیر کے لیئے ٹیم کی تشکیل بھی تقریباََ مکمل ہونے کو ہے۔زبوں حالی کا شکار ادارے بہت جلد ترقی کا سفر شروع کریں گئے،نااہل طبقہ مستقل طور پر نااہل قرار دیا جائے گا،کوئی مسخرہ اور غنڈہ ایوانوں میں نہ پہنچ سکے گا ،انصاف ہوگا اور انصاف ہوتا دکھائی دے گا۔یہ وہ خواب تھے جو نیا پاکستان بنانے والوں نے عوام کو دکھائے اور تبدیلی کی خواہشمند عوام بیس سال سے دیکھ رہی ہے ،مگر یہ صرف خواب ہی ہیں اور شاید ان کی تعبیر موجودہ نسل کا نصیب نہیں۔

حالات اگر غیر معمولی ہوں اور غیر معمولی اقدامات درکار ہوں تو غیر معمولی افراد کی ضرورت ہوتی ہے ۔چیتے کی جست کا مقابلہ اگر کچھوے کی چال سے کیا جائے تو حالات اور اقدامات کے درمیان قیامت کا سا فاصلہ آجاتا ہے ۔خلا کی تسخیر کے لیئے گدھا گاڑی کام نہیں دیتی ۔بگاڑ کی اصلاح نیم دلانہ اقدامات سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ دانشمندانہ فیصلوں سے ممکن ہوتی ہے ۔تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے شائد یہ نہیں جانتے کہ اقتدار کے ایوانوں میں افراد کی تبدیلی کو تبدیلی نہیں کہا جاتا،سیاسی پارٹیوں کے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی ۔تبدیلی سے مراد نظام کو بدلنا ہوتا ہے ۔تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ مقتول کا خون خشک ہونے سے پہلے قاتل تختہ دار پر لٹکا ہوا نظر آئے ،کسی مظلوم کی طرف بڑھنے والا ہاتھ اٹھنے سے پہلے شل ہوتا ہوا دکھائی دے اور کسی غریب کی جانب اٹھنے والی نگاہ پتلیوں کی حرکت سے پھوٹ جانی چاہیئے۔یہ تبدیلی تب ممکن ہوتی ہے جب ملک کا نظام چلانے والے ایماندار ہوں،ان کا دامن داغدار نہ ہو،وہ مستقل مزاج اور محب وطن ہوں ،انہیں اقتدار کی ہوس نہ ہو ۔مگر یہاں تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے والی ٹیم کا اپنا دامن ہی داغ دار ہے۔

اب اسے لطیفہ کہیے ،مضخکہ سمجھیئے یا عوام کے ساتھ دھوکا گردانیئے لیکن ہے یہ عجوبہ کہ عمران خان صاحب گزشتہ بیس سال سے یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ نظام کو بدلنا ہوگا ،سسٹم بوسیدہ ہوچکا ہے ،خرابیوں کی جڑ رائج نظام ہے ،نظام بدلے بغیر چارہ نہیں،کرپٹ لوگوں کو رخصت کیئے بغیر ملک نئے سفر پر گامزن نہیں ہوسکتا مگر یہ خدا کو معلوم ہے یا خود خان صاحب کو علم ہے کہ وہ یہ باتیں کیوں اورکس دل سے کر رہے ہیں۔میں تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ خان صاحب جس ٹولے کے بل بوتے پر تبدیلی لانا چاہتے ہیں اس کی موجودگی میں خان صاحب پورے شعور سے نظام بدلنے کی بات بھی کرسکتے ہیں۔ایسے لوگ جن کی سیاست کا ابھار،جن کی شخصیت کا نکھار اور جن کی کرسی اقتدار کا سرچشمہ یہی نظام رہا ہے وہ لوگ خان صاحب کی ٹیم کا حصہ بن کر نہ جانے کونسا نظام بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کی تبدیلی نظام کافہم ہی یہ ہو کہ وہ داغ دوزی اور بخیہ گری کو تبدیلی نظام سمجھتے ہوںیعنی برگد قائم رہے مخض شاخوں کو تراش خراش کر سارا نقشہ تبدیل ہوجائے۔

خان صاحب نے تقریباََ بیس سال قبل جس نظام کو تبدیل کرنے کا خواب عوام کو دکھایا تھاآج وہ خود اسی نظام کے رنگ میں رنگتے نظر آرہے ہیں۔پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بڑے بڑے تجزیہ نگار اور کالم نگار آج یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ خان صاحب نے آصف زرداری اور میاں صاحب جیسا طرز سیاست اپنا لیا ہے اور میری نظر میں بھی یہ بھی حقیقت سے قریب تر ہے کیونکہ خان صاحب کی طاقت عوام تھی ۔کرپشن،ظلم و ناانصافی کے خلاف جہاد کے لیئے خان صاحب کے سپاہی نوجوان تھے،مگر آج بیس سال گزر جانے کے بعد خان صاحب کے ساتھ کوئی نوجوان نظر نہیں آتا بلکہ وہ لوگ نظر آتے ہیں جو اس بوسیدہ ،کرپشن زدہ سسٹم سے مستفیذ ہوچکے ہیں۔

تکلف برطرف پاکستانی نوجوان جو کبھی خان صاحب کی طاقت تھا،آج یہ سوال پوچھتا ہے کہ خان صاحب آپ کس کے بل بوتے پر تبدیلی لانے جارہے ہیں؟آپ کرپشن کے خلاف ہیں آج کرپشن زدہ لوگ ہی آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں۔کیا یہ کرپشن زدہ لوگ نیا پاکستان بنانے میں آپکی مدد کریں گئے؟

کیا شاہ محمود قریشی نظام بدلیں گئے؟جو کبھی زرداری صاحب کے دست راست اور گیلانی کابینہ کے وزیر تھے۔

کیا پرویز خٹک نظام بدلیں گئے؟جو زرداری صاحب کے سپاہی اور آفتاب شیرپاؤ کے دست راست تھے۔

کیا اعظم سواتی نظام بدلیں گئے؟جو مولانا فضل الرحمن کے دست راست تھے اور امریکی ڈالروں کے عوض سینٹ میں آئے تھے۔

کیاعبدالعلیم خان نظام بدلیں گئے؟جن کو آج بھی قبضہ گروپ جیسے الزمات کا سامنا ہے۔

کیا جہانگیر ترین نظام بدلیں گئے ؟ جن کی آف شور کمپنیاں ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔

کیا غلام مصطفی کھر نظام بدلیں گئے ؟ جن کی پہچان ہی پیپلز پارٹی تھی۔

کیا چوھدری سرور نظام بدلیں گئے؟جو بی بی شہید کے خاص آدمی تھے اور پھر شریف خاندان کے سیاسی دستر خوان سے مستفیذ ہوتے رہے۔

قارئین کرام!یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی وفاداریاں بدل کر خان صاحب کے ساتھ آئے ہیں،جو کہیں نا کہیں ،کبھی نا کبھی کرپشن کے سمندر میں غوطہ لگا چکے ہیں اور اب گنگا نہانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کی اپنی ٹیم کہاں ہے؟وہ نوجوان کہاں ہیں؟ جنہیں بیس سال سے خان صاحب تیا ر کررہے ہیں،جنہوں نے نئے پاکستان کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔

خان صاحب کو شائد اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے کہ ان کی کامیابی کی صورت میں پوری ٹیم اس کامیابی میں شریک تصور ہوگی مگر ناکامی کی صورت میں نتائج صرف خان صاحب بھگتیں گئے،اگر اس حقیقت کا ادراک خان صاحب کو ہوتا تو وہ کبھی کرپشن زدہ لوگوں کو اپنی ٹیم کا حصہ نہ بناتے ۔خان صاحب آج نوجوانوں کو نظرانداز کرکے ،تحریک انصاف کے مخلص کارکنوں کے اخلاص کی پرواہ کیئے بغیر کرپشن زدہ لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں اور پھر کرپشن کے خاتمے کی بات بھی کر رہے ہیں،یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

خان صاحب گزشتہ دنوں آپ نے فردوس عاشق اعوان کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا کیا آپ بھول گئے کہ یہ وہی فردوس عاشق اعوان ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ق) اس لیئے چھوڑی تھی کہ انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دے رہی تھی۔یہ ۲۱۰۲ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران وزیر اطلاعات بنی اور کچھ عرصہ بعد انہیں عہدہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے آنسو بہا کر اپنی وزارت بچائی تھی۔خان صاحب یہ وہی فردوس عاشق اعوان ہیں جنہوں نے سوسائٹی فار ہیلتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ ایکس چینج کے نام پر پیسے کمائے ،یہ وہی فردوس عاشق اعوان ہیں جن پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں اور ۲۱ سرکاری بسوں کو ذاتی استعمال میں رکھنے جیسے بے شمار الزمات ہیں۔

خان صاحب آپ نے نذر محمد گوندل صاحب کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ۔کیا آپ بھول گئے کہ یہ وہی نذر محمد گوندل ہیں جن پر رشوت اور اپنے اختیارات کے غلط استعمال،اقربا پروری کے تسلسل میں وفاقی وزیر کے بیٹے کے دوست کی ۰۲ گریڈ پر بھرتی ،بغیر اشتہار کے ۱۶ ملازمین کی بھرتی،ای۔او۔بی۔آئی کے خرچ پر خریدی گئی کروڑوں روپے مالیت کی لگژری گاڑیوں کو خاندان کے افراد کے استعمال میں رہنے،ظفر گوندل کی طرف سے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے سلک بنک میں ۷۳ کروڑ روپے رکھوانے ،سابق وفاقی وزیر شیریں رحمان کے شوہر کے بنک تعمیر مائیکرو فنانس بنک میں ۲۴ کروڑ روپے رکھوانے ،ایمپلائز کے جی ۔پی فنڈز رکھوانے اور کروڑوں روپے کمیشن حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔خان صاحب کیا آپ یہ بھول گئے کہ نذر محمد گوندل ۵۴ ارب روپے کرپشن میں ملوث ملزم کے بھائی ہیں۔.

خان صاحب تحریک انصاف نوجوانوں کی جماعت تھی ،ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بیس سال قبل جب آپ نے نوجوانوں کو ساتھ لیکر چلنے کا نعرہ لگایا تھا،آپ نوجوانوں کو تیار کرتے ،آپ یونیورسٹی لیول سے نوجوانوں کو اپنی جماعت میں لیکر آتے ،انہیں لیڈر بننے کے گر سکھاتے ،انہیں عوام کے مسائل سے اگاہ کرتے ،انہیں تبدیلی کے اغراض و مقاصد سے واقف کراتے تو آج آپ کے پاس نوجوانوں کی صورت میں پوری ٹیم موجود ہوتی جو آپ کے بعد آپ کی جماعت کو بھی سنبھالتی اور آپکے نئے پاکستان کے نظام کو بھی چلاتی ،مگر خان صاحب آپ نے تو اپنی جماعت میں لوہا جمع کر لیا ہے وہ لوہا جس نے کبھی مسلم لیگ (ق) کا جہاز ڈبویا اور کبھی پیپلز پارٹی کا۔خان صاحب آج آپ کے چاہنے والے ہی آپکی سیاست پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں کہ خان صاحب گراس روٹ لیول کی سیاست چھوڑ کر کیوں الیکٹ ایبل کی سیاست پر آگئے ہیں۔۔۔۔؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے