جہیز کی لعنت اور معاشرے کا دُکھ

بیٹیا ں رحمت ہوتی ہیں لیکن ہمارئے معاشرتی رویوں نے بد قسمتی سے بیٹیوں کو زحمت بنا دیا ہے ۔جس معاشرے میں جہیز جیسا ناسور کینسر کی طرح پھیل چکا ہو وہاں بیٹیوں کی پیدائش پر والدین کے چہروں پر خوشی و مسرت کی بجائے رنج و الم دکھائی دے گا ۔

جہیز ایک لعنت ہے اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے ۔ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب لپیٹ لیے ہیں ۔ان کی آرزوں ،تمناؤں اور حسین زندگی کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔انھیں ناامیدی اور مایوسی کی گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اجالے کا سفر ناممکن ہے ۔

یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں ۔اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کی لخت جگر کو قبول کرے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قدم مضبوتی سے جما لیتی ہیں اور ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے ،دراصل جہیز خالص ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے اس لعنت نے موجودہ دور میں پھن پھیلا لیے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونے والی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں جہیز غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے ۔

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں سب کچھ دولت سے کے ترازو میں تولا جاتا ہے ،ہر رشتے ناطے کو پیسے کے ترازو میں تولا جاتا ہے ،یہاں کسی رشتے ،خلوص ،اپنائیت ،محبت ،ہمدردی اور شفقت جیسے بے لوث جذبات کی کوئی پہچان نہیں ،جہاں انسانیت نام کی چیز دور دور تک نظر نہ آئے تو وہ معاشرہ نہیں جنگل کہلاتا ہے ۔

جہاں بہو کو صرف اسی وجہ سے طلاق دے دی جائے کہ اس کے والدین نے سسرال والوں کی خواہشات کے مطابق جہیز نہیں دیا ،جہاں بیوی ساری زندگی شوہر کے طعنوں کے نشتر برداشت کرتی رہے کہ وہ جہیز میں موٹر بائیک ،گاڑی کیوں نہیں لائی جہاں آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہوں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے ؟

غریب گھرانوں میں بیٹیوں کی پیدائش سے ہی اس کے جہیز کے لیے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر رقوم جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر جب بیٹی کی شادی کا دن آتا ہے تو والدین سسرال والوں کی خواہشات کے مطابق جہیز دینے سے قاصر نظر آتے ہیں پھر مجبوراقرضوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور باقی ان کی زندگی قرضوں کے بوجھ تلے دبی گزرتی ہے ۔دوسری طرف اتنا قمیتی جہیز دینے کے باوجود بھی وہ اپنی بیٹیوں کی خوشیوں کی ضمانت بھی نہیں خرید پاتے اس لیے کہا جاتا ہے کہ والدین بیٹیوں نہیں ان کے نصیب سے ڈرتے ہیں ۔

ہمار ے معاشرے میں ایسے گھرانے آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو جہیز جیسے ناسور کو لعنت سمجھتے ہیں اور بیٹی کے والدین کو جہیز کے لیے منع کرتے ہیں ایسے دین دار گھرانے بخوبی اپنے فرائض سے واقف ہوتے ہیں اوربہو کو بڑی عزت اور وقار کے ساتھ بیاہ کر لاتے ہیں اسکے برعکس ہمارا معاشرہ ایسے گھرانوں سے بھرا پڑا ہے جو منہ کھول کر اپنے بیٹے کی بولی لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اگر بد قسمتی سے لڑکی جہیز میں وہ چیزیں نہ لاپائے جن کی فرمائش کی گئی ہے تو شادی سے پہلے کی گئی تھی تو شادی کے بعد اسے والدین کی غربت کے طعنے سننے کو ملتے ہیں ۔

آج کسی گھر میں بیٹیوں کی پیدائش اوپر تلے ہو رہی ہو تو پریشانی ان کی ماں کے چہرے سے خوب عیاں ہورہی ہوتی ہے اور باپ کے کندھوں پر تعلیم اور جہیز کا بوجھ نظر آ رہا ہوتا ہے ۔

جہیز کسی ایسے معاشرے میں پروان چڑھے جو اسلامی قدروں سے ناواقف ہو تو سمجھ میں بھی آتا ہے جبکہ ایک ایے معاشرے میں جہاں اسلام کے پیرو کار رہتے ہوں اور دین اسلام کی باتیں بھی کر رہے ہوں دوسری جانب جہیز کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں سے نکاح حسن اور مال کی وجہ سے نہ کرو بلکہ خاتون کے کردار کی وجہ سے کرو ۔قرآن و حدیث میں شادی جیسے اس قدر پاکیزہ اور مقدس رشتے کے متعلق واضع احکامات ہونے کے باوجود ہم جہیز کو ہی لڑکیوں کی کامیاب زندگی کا ضامن سمجھتے ہیں ۔

اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے سخت کارروائی کی ضرورت ہے معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کے لیے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا ۔وہ عہد کریں کہ نہ جہیز لیں گے اور نہ دیں گے ۔لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف دینا اور اپنی جائیداد فروخت کر کے جہیز دینا اخلاقی جرم ہے ۔

جہیز کے علاوہ بھی ہمارے سماج میں غیر اسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی بڑھ رہی ہے ۔امیروں کے لیے کوئی بات نہیں مگر غریبوں کے لیے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں بیٹیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔

جہیز کا لین دین غیر اسلامی ہے اس گھناونی غیر اسلامی رسم کو ختم کرنے کے لیے نوجوان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کر دے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے