پاکستان میں صحافیوں کے صحافت اور دھندے

پاکستان کے ’’دا بڈی، کمفرٹ ایبل اور دا ہَنٹر‘‘ صحافی

کیا ایک صحافی ایک جیالہ ہوتا ہے، کیا ایک صحافی پی ٹی آئی کا ٹائیگر ہونا چاہیے، کیا ایک صحافی یا تجزیہ کار کو تخت لاہور کا قصیدہ گو ہونا چاہیے؟ تو جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ ایک صحافی کو ایک صحافی ہی رہنا چاہیے۔ صحافت اور سیاست میں فرق قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا ایک صحافی اور ایک سیاستدان میں ہوتا ہے۔
سیاستدان اکثریت کی حمایت کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن ایک صحافی سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اگر ایک سیاستدان جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر رہا ہے تو ایک غیر جانبدار تجزیہ کار کا کام اس سچ اور جھوٹ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ خفیہ معلومات کے حصول کے لیے ہر صحافی سیاستدانوں یا پھر اقتدار کے حلقوں کی قربت چاہتا ہے لیکن دوسری جانب قارئین اور عوام کے سامنے ایک صحافی کی غیر جانبداری ہی اس کا سب سے بڑا اور اصل سرمایہ ہوتی ہے۔
لیکن اسے شاید پاکستانی صحافت کی بدقسمتی کہہ لیجیے کہ یہاں پر غیرجانبداری جیسا سرمایہ کچرے کا ڈبہ خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نامور صحافی ’’دا بڈی (دوست) ، پارٹی ممبر، ذاتی، کمفرٹ ایبل اور دا ہنٹر جرنلسٹ بن چکے ہیں۔
۔ دا بڈی صحافی
بڈی (دوست) صحافی وہ ہوتے ہیں، جو سیاستدانوں کے دوست بن جاتے ہیں۔ یہ صحافی اپنے دوست سیاستدانوں کے خلاف ثبوتوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے ان کی حمایت جاری رکھتے ہیں۔ ایسے صحافی اُسی وقت اپنے دوست سیاستدانوں سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں، جب انہیں پتا چل جائے کہ ثبوت عوام کے سامنے آ جائیں گے اور عوامی رد عمل آئے گا۔ لیکن ایسے صحافی ہر اس مشکل گھڑی میں اپنے سیاستدان دوستوں کی مدد کو تیار ہوتے ہیں، جب انہیں ضرورت ہوتی ہے اور ان کو یقین ہو کہ انہیں بھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔ سب سے آسان بڈی صحافیوں کو مانی پولیٹ (دماغ سازی) کرنا ہوتا ہے کیوں کہ یہ اپنے دوست سیاستدانوں پر اندھا اعتبار کرتے ہیں۔
– ہنٹر صحافی
پاکستان میں ہنٹر صحافیوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے صحافی اپنے مخصوص یکطرفہ مقاصد کے لیے سیاستدانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستدان سچ بھی بولے تو یہ اسے جھوٹ بنا کر ہی پیش کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کے پاس کثیر النظری، غیرجانبداری اور مقصدیت تینوں چیزوں کا فقدان ہوتا ہے۔ کیا یہ عوام کی بہتری چاہتے ہیں اس پر سوالیہ نشان ہے؟
– ذاتی صحافی
ایسے صحافی سیاستدانوں کی نظر میں ان کے اپنے صحافی ہوتے ہیں۔ ایسے صحافی بغیر کسی چوں چراں کے وہ مواد شائع کر دیتے ہیں، جو انہیں سیاستدان دوست مہیا کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کی اہمیت سیاستدانوں کی اپنی پبلک ریلیشن ٹیم سے تھوڑی زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ کام وہی کرتے ہیں۔
– پارٹی ممبر صحافی
پارٹی ممبر صحافی کسی بھی سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے دلائل ، اسٹوری چوائس، بولنے کے انداز اور مخصوص پارٹی سے متعلق تنقیدی سوالات اٹھانے کی صلاحیت سے پتا چلتا ہے کہ ان کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔ ایسے صحافی کسی کے حق میں اپنے دلائل کو پالش کرنے میں کافی وقت لگاتے ہیں تاکہ اسٹوری چوائس پر عقلی دلائل دیے جا سکیں۔

– کمفرٹ ایبل صحافی
ایسے صحافی ’میں تمہارا ساتھ دوں گا تم میرا ساتھ دینے‘ کی پالیسی اپناتے ہیں۔ ان کا موٹو ہوتا ہے کہ اگر ہم دونوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو لڑنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسے صحافی بس اپنی زندگی آسان چاہتے ہیں، جہاں سے کھانے کی دعوت آئے اسی پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے صحافی سب سے بنا کر رکھنے کے اصول پر قائم ہوتے ہیں، ہر ایک کے لیے کمفرٹ ایبل ثابت ہوتے ہیں۔
– پروفیشنل صحافی
کسی سیاسی جماعت کا ہمدرد نہیں بنتا، اس کی ایمانداری کو خریدا نہیں جا سکتا، حقائق عوام تک پہنچانا چاہتا ہے، سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اپنی رائے، رپورٹوں اور آرٹیکلز کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر رائے اور زاویے کو سامنے لاتے ہیں، چاہے خود انہیں یہ رائے نا پسند کیوں نہ ہو۔ کسی کو مقدس گائے نہیں سمجھتے۔ اگر سچا صحافی ہے تو سچ ہی تلاش کرے گا۔
لیکن پاکستان میں معاملہ بہت ہی مختلف ہے۔ صحافی ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینے کا دعوی کرتے ہیں، وہ سرعام سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کا کام کرتے ہیں لیکن خود کو ’غیرجانبدار صحافی یا تجزیہ کار‘ بھی کہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے کوئی نقصان بھی ہوتا ہے؟ تو جواب ہے بالکل ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے سے نامور صحافیوں کی اپنی ساکھ داؤ پر لگتی ہے، صحافت کی ساکھ داؤ پر لگتی ہے۔
عطاالحق قاسمی صاحب کا شمار صف اول کے مزاح اور کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہے اور شاعر بھی ہیں۔ آج کے اردو ادب کا نام ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن ان کی سیاسی وابستگیاں ان کے سارے علمی قد کاٹھ کو کھاتی جا رہی ہیں۔
آج کی نسل انہیں علمی خدمات کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی مسلم لیگ نون سے وابستگی کی وجہ سے جان رہی ہے اور یہ بات شاید ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی ان سے جڑی رہے گی۔ حبیب جالب، احمد فراز، اشفاق احمد، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، مشتاق احمد یوسفی، یونس بٹ، شفیق الرحمان اور مستنصر حسین تارڑ جیسی شخصیات تو پاکستانی ادب میں شاید زندہ رہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ قاسمی صاحب نون لیگ کے حوالے سے یاد کیے جائیں لیکن سیاستدان کہاں کسی کو یاد رکھتے ہیں؟
دوسری مثال جاوید چودھری صاحب کی ہے۔ میں انیس سو ستانوے، اٹھانوے سے ان کے کالم پڑھتا آ رہا ہوں، آج بھی شوق سے پڑھتا ہوں لیکن ان سے وہ پہلے والی وابستگی نہیں رہی۔ کبھی ان کے کالموں کو "غریب عوام کی آواز” سمجھا جاتا تھا لیکن ان کے اپنے زندگی کے معیارات تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ان پر ایک مخصوص لائف اسٹائل کو جسٹیفائی کرنا، بڑے بڑے معاملات میں ملک ریاض اور مسلم لیگ نون کی حمایت کرنے کی چھاپ لگتی جا رہی ہے۔ اب ان کا حوالہ حسین نواز کے باوضو رہنے کی گارنٹی دینا بنتا جا رہا ہے۔ دوست احباب پڑھنے سے پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ان لوگوں کی حمایت ہی کی ہو گی۔ چودھری صاحب ’’دا بڈی اور پارٹی ممبر‘‘ صحافی کی طرح اس اثر کو زائل کرنے کی اکثر کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود نون لیگ اور ملک ریاض کا لوگو ان کے ساتھ جڑتا جا رہا ہے۔ اس طرح کے کئی دیگر صحافی بھی ہیں، جن کے حقائق پر اب یقین کرنے کو دل نہیں کرتا اور وجہ صرف اور صرف ان کی سدا بہار سیاسی وابستگیاں ہیں۔
دوسری جانب ہالرون الرشید صاحب اور حسن نثار جیسے بڑے اور اعلی پائے کے کالم نگار ہیں، جو سر عام پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی نظر میں پاکستان کی باقی ساری سیاسی جماعتیں دنیا کی برائیوں کا مرکز ہیں ایسے کئی دیگر صحافی بھی ہیں، جو پاکستان تحریک انصاف کے لیے تو ’’دا بڈی اور پارٹی ممبر‘‘ صحافی کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ مسلم لیگ نون کے لیے ’ہنٹر صحافی‘ ثابت ہوئے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود، مبشر لقمان اور عارف حمید بھٹی صاحب کا بس چلے تو راتوں رات کسی بھی جمہوری یا مسلم لیگ نون کی حکومت کو تہہ و بالا کر دیں لیکن ان کا بس نہیں چلتا۔ یہ پاکستان کے اعلیٰ پائے کے ہنٹر صحافی محسوس ہوتے ہیں۔
بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون میں کوئی اچھائی نہ ہو؟ اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون میں کوئی برائی نہ ہو ؟
ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کی ہر بات ٹھیک ہو اور ان جماعتوں کی قیادت نے کبھی غلطیاں نہ کی ہوں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ فوج سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور فوج میں کوئی اچھائی نہ ہو؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بطور صحافی ایک صحافی دیانتداری سے کام لے۔ عوام کو حتی الامکاں سچ پر مبنی اطلاعات فراہم کی جائیں۔ آپ تجزیے کرتے وقت بھی بھی جہاں تک ممکن ہو سکے غیر جانبدار رہتے ہوئے تجزیے کریں لیکن ایسا نہیں رہا۔ پاکستانی میڈیا پر تجزیے اور کالم صحافیوں کے نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں، بڈی، پارٹی ممبر اور ہنٹر صحافیوں کے تجزیے لگنا محسوس ہو گئے ہیں۔
عوام میں ایک غیرجانبدار صحافی یا تجزیہ کار کا تاثر قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید ایک صحافی کو اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے اور پاکستان میں شاید اب صحافیوں کے لیے ذاتی مفادات اور ذاتی نظریات کی قربانی دینا ایک مشکل امر ہو گیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں سیاسی وابستگیاں آپ کے کام کو کھا جاتی ہیں، آپ کے علمی قد کاٹھ کو چھوٹا کر دیتی ہیں، عوام کا ایک مخصوص طبقہ تو آپ کی عزت کرتا ہے لیکن دیگر معاشرتی طبقات میں آپ قابل اعتماد نہیں رہتے۔ آپ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، صحافت جیسے پیشے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، آپ کی اپنے مداحوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے