چیمپیئنز ٹرافی جیتنے پر کشمیریوں نے جشن کیسے منایا؟

گزشتہ کچھ ہفتوں سے کشمیر میں موسم نے تنگ کر رکھا ہے۔ تیز دھوپ والی گرم صبح کے بعد دوپہر میں دیر سے بارش ہوجاتی ہے۔ 18 جون بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ سورج کی چمک میں جو تیزی صبح کے وقت کی، وہ دن کے وسط تک ختم ہو چکی تھی۔ آسمان بادلوں سے بھر چکا تھا جبکہ بارش بھی زیادہ دور نہیں تھی۔

ہم ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر آ گئے اور ایک دکان کے باہر بیٹھ کر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی فائنل 2017 پر اپنا اپنا تجزیہ دینے لگے۔ وہ میچ، جو کشمیر اور کشمیریوں کے لیے جوش کے ساتھ ساتھ خوف بھی لاتا ہے۔

جب ہم میچ کے ممکنہ نتائج پر باتیں کر رہے تھے، اس وقت ہمارے علاقے کے سب سے سینیئر ‘تجزیہ نگار’ نب کاک بھی ہمارے درمیان آ بیٹھے۔ وہ 80 سال کے ہونے والے ہیں، کرسی پر نماز پڑھتے ہیں، اور چلنے کے لیے لاٹھی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے آدھے دانت گر چکے ہیں، اور باقی کے آدھے سڑ چکے ہیں اور گرنے کے قریب ہیں۔

اپنی پوری زندگی میں انہوں نے کرکٹ صرف پاکستان کی وجہ سے دیکھا ہے۔ انہیں میانداد کا مشہور چھکا بھی یاد ہے اور 1992 کا ورلڈ کپ بھی۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا کوئی بھی اہم واقعہ ان سے پوچھیں، اور وہ آپ کو پوری کہانی سنانے کو تیار ملیں گے۔

مگر اتوار کے دن نب کاک تھوڑے پریشان نظر آتے ہیں۔ "کوہلی سے خبردار رہنا، مگر عامر پر یقین رکھنا۔” دکان پر بیٹھے لڑکوں نے ان سے کہا کہ پاکستان ضرور جیتے گا۔ پٹاخے بھی فروخت ہونے شروع ہو چکے تھے۔

ٹورنامنٹ شروع ہونے سے بھی قبل یہ کشمیری ہی تھے جنہیں پاکستان کے جیتنے کی پوری امید تھی۔ صرف وہی لوگ جو گولیوں کا مقابلہ ہاتھوں میں اٹھائے پتھروں سے کرتے ہیں، جنوبی افریقا، ہندوستان، اور انگلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف پاکستان کے جیتنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ کشمیری ہر مشکل صورتحال میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، ہمیں رینکنگز دیکھ کر خوفزدہ ہونا نہیں آتا۔

جب ہم دکان سے نکلے تو سب اس بات پر متفق تھے کہ ٹاس جیتنا اہم ہوگا۔ چنانچہ ہم نے سرفراز کے ٹاس جیتنے کے لیے دعائیں کی، مگر وہ ہار گئے۔ میچ کا ایسے آغاز تھوڑا مایوس کن تھا۔

اس وقت کشمیر کی گلیوں میں ایسے لگ رہا تھا جیسے عوام نے خود پر کرفیو نافذ کر لیا ہو۔ سڑکیں خالی تھیں، مرد، بچے، اور عورتیں سب ٹی وی اسکرینز سے چپکے ہوئے تھے۔

میری 14 سالہ کزن، جو جنون کی حد تک پاکستان ٹیم کی پرستار ہے، میرے ساتھ بیٹھی اپنے چھوٹے بھائی پر طنز کر رہی تھی جو مہیندرا سنگھ دھونی کی وجہ سے ہندوستانی ٹیم کی حمایت کرتا ہے۔ میری کزن کو لگتا ہے کہ کسی کشمیری کے لیے ہندوستانی ٹیم کی حمایت کرنا نہایت غیر فطری ہے۔

دادا ہماری ہمت مزید بڑھانے کے لیے آ گئے۔ انہوں نے پیشگوئی کی کہ پاکستان کا ایک اوپنر سنچری بنائے گا۔

جب اظہر علی اور فخر زمان میدان میں اترے تو میں نے اظہر کی بیٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ان پر تنقید شروع کر دی۔ مجھے وہ پاکستان کی ون ڈے ٹیم میں وہ ہمیشہ سے عجیب محسوس ہوتے ہیں۔

مگر پھر بھی وہ پاکستان کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ انہیں خود پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کروانا تھا (بھلے ہی مجھے اب بھی لگتا ہے کہ ون ڈے ٹیم میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔)

فخر زمان شروع میں تھوڑے لاپرواہ اور غیر سنجیدہ لگے۔ ہندوستانی باؤلرز منصوبہ بندی کے تحت کھیل رہے تھے، مگر جلد ہی اس منصوبے کا شیرازہ بکھر گیا اور فخر نے سنچری بنا ڈالی۔

میرے والد کا اپنے ڈاکٹر کے ساتھ اپائنمنٹ تھا، مگر میں گھر سے نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ 12 اوورز باقی تھے، اور پاکستان ابھی بھی 300 رنز کی لکیر پار نہیں کر پایا تھا۔

بالآخر ہم گھر سے نکلے۔ بارہ مولہ-کپواڑہ ہائی وے سے ٹریفک غائب تھی۔ بازار بھی ویران پڑا تھا۔

جب تک ہم وہاں سے فارغ ہوئے، تب تک ہندوستانی بیٹسمین ہدف کا تعاقب کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے تھے۔ جب میں بازار کے واحد کھلے ہوئے میڈیکل اسٹور سے دوائیں لے رہا تھا تو میں نے ایک زور دار دھماکہ سنا۔ مگر دکان میں کسی نے بتایا کہ یہ "پٹاخے کی آواز تھی۔”

میں نے اسکور چیک کرنے کے لیے فون اٹھایا تو معلوم ہوا کہ روہت شرما پویلین لوٹ رہے تھے۔ عامر نے پہلے ہی اوور میں اپنا جادو چلا دیا تھا۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ مزید پٹاخے پھٹنے شروع ہوگئے تھے۔

جب تک ہم گھر پہنچے تو اس وقت تک اظہر علی کوہلی کا کیچ چھوڑ چکے تھے اور عامر اگلی گیند پر انہیں میدان سے باہر کا راستہ دکھا چکے تھے۔ ان کی باؤلنگ میں شاعری جیسا ردھم موجود تھا۔

اور جب شیکھر دھون آؤٹ ہوئے تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ ہندوستان کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔

پٹاخوں سے ساتھ نعرے بازی، نعرے بازی کے ساتھ پٹاخے۔ اب مکمل اسکور کا تعاقب کسی صورت میں ممکن نہیں تھا۔ پاکستان کے باؤلنگ اٹیک نے ہندوستان کے ٹاپ آرڈر کو کچل کر رکھ دیا۔ ان کے سامنے ہندوستان کی بیٹنگ مضحکہ خیز حد تک نااہل معلوم ہو رہی تھی۔

زخم کھائے ہوئے کشمیریوں کے لیے پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کی شرمناک شکست سے زیادہ اچھا اس وقت اور کچھ بھی نہیں تھا۔ شاید ہمارے حواس، یا ہمارے جنون کو باقی رکھنے کے لیے غم کے اس طویل موسم میں تھوڑی دیر کا یہ جشن بہت ضروری تھا۔

کشمیر کے ان علاقوں میں سڑکوں پر ایسا جوش و جذبہ پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں بدلے کا وقت ہو گیا۔

مختلف علاقوں سے خبریں آنے لگیں کہ ہندوستانی فوج نے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ جیسی کہ توقع تھی، سری نگر میں ہندوستانی فوجوں اور پتھراؤ کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔

کشمیریوں نے کسی بھی جشن کی ہمیشہ بھاری قیمت چکائی ہے، مگر خوش قسمتی سے اس دفعہ کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ صرف ایک دن کے لیے، کشمیر کے کسی گھر میں صفِ ماتم نہیں بچھی۔

فی الحال یہ جشن جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے