گالیوں بھری سفارشیں

ہم لوگ بہت عجیب ہی نہیں، بہت غریب بھی ہیں، چنانچہ ہمارے مسائل دونوں طرح کے ہیں، ایک مسئلہ ایسا بھی ہے جو بیک وقت عجیب بھی ہے غریب بھی ہے یعنی عجیب و غریب ہے اور وہ یہ کہ ہمیں جب کسی سے کام پڑتا ہے اور وہ کام اکثر جائز ہوتا ہے جو ناجائز نظام کی وجہ سے اپنے آپ نہیں ہورہا ہوتا تو ہم کوئی سفارش ڈھونڈتے ہیں اور سراپا عجز و انکسار بن کر کسی سفارشی کے پاس پہنچتے ہیں۔ سفارشی بھی اسی ناجائز نظام کا باسی ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنی سفارش اپنے پاس سنبھال کے رکھنا چاہتا ہے کہ خود اسے بھی کسی وقت اس کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن جو میری طرح کے رقیق القلب سفارشی ہوتے ہیں، وہ فوراً اس آتش نمرود میں کود پڑتے ہیں………!
عجیب و غریب سلسلہ اس کے بعد شروع ہوجاتا ہے، اگر تو آپ کی سفارش کام نہیں آتی تو’’سائل‘‘ تیر کی طرح واپس آپ کی طرف آتا ہے اور کہتا ہے’’جناب! مجھے اپنا کام نہ ہونے کا کوئی افسوس نہیں مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت دکھ ہوا کہ جناب کی شہر میں ٹکے کی عزت نہیں ہے، میں نے آپ کا رقعہ صاحب کے ہاتھ دیا، اس نے آپ کا نام پڑھا تو پوچھا یہ کون صاحب ہیں، میں نے کہا صاحب جی! ایسے تو نہ کہیں ، وہ آپ کے قریبی دوستوں میں سے ہیں، مگر جناب، صاحب نے آپ کا رقعہ پھاڑ کر ٹوکری میں پھینک دیا اور بولے تم جس شخص کا رقعہ لے کر آئے ہو وہ نہایت واہیات آدمی ہے، چنانچہ تمہارا کام اگر ہونا بھی تھا تو اب نہیں ہوگا۔ اس نے جناب کے بارے میں ا ور بھی بہت سی فضول باتیں کیں اور پھر چپراسی سے کہا اسے باہر نکال دو، پھر وہ مجھے دس بارہ گندی گالیاں بھی دیتا ہے اور کہتا ہے جناب اس نے آپ کو یہ گالیاں بھی دیں تھیں۔ جناب مجھے اپنا کام نہ ہونے کا کوئی افسوس نہیں لیکن جناب کی جو’’بے عزتی‘‘ ہوئی ہے اور صاحب کے رویے سے مجھے جو اندازہ ہوا ہے کہ شہر میں آپ کی ٹکے کی عزت نہیں اس کا مجھے افسوس ہے!‘‘۔
یہ وہ مسائل ہوتے ہیں جو برسوں کی دوستیاں نہ صرف چشم زدن میں ملیا میٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ آپ کو اپنی اوقات بھی اس بری طرح یاد دلاتے ہیں کہ خود کشی کو جی چاہنے لگتا ہے۔ اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب آپ کی سفارش سے اس قسم کے سائل کا کام ہوجاتا ہے تو پھر واپس آپ کی طرف نہیں آتا بلکہ فون پر بھی نہیں بتاتا کہ اس کا کام ہوگیا ہے کہ کہیں آپ متعلقہ شخص کا شکریہ ادا نہ کردیں جس نے آپ کے کہے کی عزت رکھی تھی، چنانچہ برسوں کے تجربے کے بعد اب میرا وتیرہ یہ ہے کہ اگر کبھی کسی’’سائل‘‘ کی سفارش کردی اور وہ’’سائل‘‘ مجھے دوبارہ اپنی شکل نہ دکھائے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ اس کا کام ہوگیا ہے، چنانچہ میں متعلقہ شخص کا فون پر شکریہ ادا کردیتا ہوں۔
سفارش تلاش کرنے والوں کی ایک قسم اور بھی ہے وہ انتہائی ناجائز کام آپ کے پاس لے کر آئیں گے جس کے کرنے والے کو موقع پر ہتھکڑیاں لگ جائیں اور سفارشی عمر بھر ضمیر کی خلش محسوس کرتا رہے۔ آپ اسے کہیں گے کہ بھائی یہ کام ناجائز ہے، یہ نہیں ہوسکتا، اس پر اس کا عمومی جواب یہ ہوتا ہے کہ جناب اگر جائز کام ہوتا تو میں نے آپ ہی کے پاس آنا تھا؟ اس سے اور کچھ ہو نہ ہو آپ کو یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ شہر میں آپ کی ریپوٹیشن کیا ہے؟ ایک گائوں سے میرے ایک جاننے والے کی وساطت سے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا’’ایک چھوٹا سا کام ہے، اس کے لئے آپ کے پاس آتے ہوئے شرم آتی تھی لیکن چوہدری صاحب نے کہا کہ وہ صرف آپ ہی کو جانتے ہیں‘‘، میں نے کہا’’کوئی بات نہیں، آپ کام بتائیں! ‘‘بولے ’’یہ جو جناب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے اس نے مخالفوں کے تین چار بندے لادئیے ہیں(قتل کردئیے ہیں)اب پولیس اسے گرفتار کرنے کے لئے گھر پر چھاپے مارہی ہے، گھر میں پردہ دار بیبیاں ہیں، ہم عزت دار لوگ ہیں ذرا آئی جی صاحب کو فون کرکے ان پولیس والوں کی پتلون تو اتروائیں۔‘‘
سفارش تلاش کرنے والوں کی ایک اور قسم ایسی بھی ہے جو خواہ مخواہ سفارش تلاش کرتی رہتی ہے مثلاً یار، عزیزوں میں ایک مرگ ہوگئی ہے کوئی گورکن واقف ہے؟ بینک سے چیک کیش کرانا تھا، کیشئر سے کوئی واقفیت ہے؟ گاڑی میں پٹرول ڈلوانا ہوتا ہے، کوئی پٹرول پمپ والا واقف ہے؟بچوں نے اسکول جانا ہوتا ہے، کوئی تانگے والا واقف ہو تو بتلائو؟ بچے ناشتے میں کلچہ پسند کرتے ہیں، کوئی کلچے والا واقف ہے؟ یہ سفارشیں جو ہمیں مضحکہ خیز لگتی ہیں، ممکن ہیں یہ اتنی مضحکہ خیز نہ ہوں اور یوں آج نہیں تو کل ہمیں بھی اس سلسلے میں سفارشیوں کی ضرورت پڑے، ہم دن بدن نظام کو جس طرح کمزور سے کمزور تر کرتے چلے جارہے ہیں، ایک دن اس کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے