خزینۂ معلومات

خدا خدا کرکے JIT کی پیشیاں اور سنوائیاں ختم ہوئی ہیں اور ہم اس روز روز کی ہرزہ سرائی سے محفوظ ہوگئے ہیں۔ عدلیہ اور JIT سے عوام کو شکایت ہے کہ انھوں نے اپنے اداروں کے تشخص کا خیال نہیں رکھا۔ دونوں باعزت اداروں کے دروازوں کے باہر اسٹینڈ لگے رہے اور حکومت کے حامیوں اور مخالفین نے دربار سجالئے اور دونوں اداروں پر تابڑ توڑ حملے شروع کردئیے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیوں ان لوگوں پر تفتیش اور مقدمہ کی سنوائی تک یہ پابندی نہیں لگائی کہ اس موضوع پر کوئی منہ نہ کھولے اور نہ ہی کوئی اس موضوع پر بحث یا گفتگو کرے۔ اس قسم کی آزادی تقریر سے ماحول بہت ہی کشیدہ ہوگیا تھا۔ میاں صاحب پہلے بھی بہت سے بحرانوں سے صحیح سلامت نکل آئے ہیں۔ آگے دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ رب العزّت مُسبب الاسباب ہے، رحیم ہے کریم ہے سب کچھ کرسکتا ہے۔
آئیے اب آپ کی خدمت میں دو نہایت اعلیٰ، معلومات سے بھرپور کتب پیش کرتا ہوں۔

(1) پہلی نہایت اعلیٰ، اہم کتاب ’’آقا ؐ(سیرت پاک)‘‘ ہے جو جناب ابدال بیلا نے تحریر کی ہے۔ درحقیقت یہ سیرت پاک حضرت محمدؐ ہے۔ اس کونہایت خوبصورت انداز میں شائع کیا گیاہے۔جس جذبے، محبت اور لگن سے جناب ابدال بیلا نے یہ خزینہ معلومات تحریر کی ہے وہ ان کے عشق رسولؐ کی انتہا ہے۔ جب تک آپ عشق رسولؐ میں مجذوبیت کی حد پار نہ کرلیں آپ کے دل سے ایسی پُراثر، محبت سے پُر تحریر نہیں نکل سکتی۔ آئیے دیکھئے انھوں نے خود فلیپ پر اپنے جذبات کا کن الفاظ میں تذکرہ کیا ہے۔

’’اُم معبد کی آنکھوں میں پھر دیکھے ہوئے ماہِ کامل کے تصور سے آسمان سے سارے ستارے اُتر آئے اور وہ اپنے خیال شائستہ میں کھوئی، کھلی آنکھوں میں، انہیں بند کرکے ہولے ہولے کہنے لگی:

’’آج حیرت بھرا خوش نصیب دن ہے۔ جو میری ساری زندگی میں پہلی بار آسمان سے اُترا ہے۔ آج میں نے کائنات بھر کا سب سے حسین اجلا پن اور پاکیزگی انسانی شخصیت میں مجسم دیکھی ہے۔ چہرہ پُرنور، اخلاق خلائق کی ہر حد سے خوباں، جسم پھولوں بھری ڈال، خوش خیال، خوش خصال، کمال حد جمال، نہ کوتاہ گردن، نہ چھوٹاسر، سر کے بال پورے، گھنے، لمبے اور میانہ گھنگریالے، بالوں کی سیاہی تیز چمکتی ہوئی، ستوان اونچی سجیلی گردن، مہکتی ہوئی گھنی داڑھی،، آپس میں شائستگی سے جڑی ہوئیں، آنکھیں موتیوں بھرے جادوئی سیپ، لمبی خوش قطع روشن اور خوش نما، حیا سے سرسراتی ہوئیں، آنکھوں کی پتلیاں کالی کچور، خوش خیالی سے بھری ہوئیں، نیک سرشت، باقرینہ اور آنکھوں کی سفیدی، دودھ کے مکھن سے بھی اُجلی، براق، ان آنکھوں کی چمک، ہیرے سے ہویدا دھنک، بقعہ نور، نور در نور، جدھر آنکھ اُٹھتی، موسم بدل جاتا، خیر بھرا خیرہ، شاد کام، خوش گام، شیریں کلام، خاموشی میں پروقار، مسکراتے تو حسن کی آبشار، گفتگو جیسے نگینوں کی لڑی، آب دار مہکتے موتی ان کی باتوں سے جھڑتے، خوش نوا، شیریں سخن، قول فیصل کہنے والے، پرلطف، کم گو، مگر کم گوئی ایسی نہیں کہ بات پوری نہ ہو۔ لفظ لفظ موتیوں کی مالا، پھولوں کا گجرا، دل پسند، آواز میں سر کے سارے آہنگ، نفیس اور بلند خیال، فضول گوئی سے کوسوں دور، شان اور تمکنت والے، دور سے دیکھو تو سب سے حسین، سراپا جاہ و حشم۔ قریب سے شیریں۔ گفتار میں فصیح، ابلاغ میں بلاغت، خوش گزار اور خوش رفتار، دیکھنے میں نہ اتنے لمبے کہ قد کی لمبائی چبھے، نہ کوتاہ قد، موزوں قدوقامت، خوش انگ، نرمل، بے میل، باسلیقہ اور باوقار قول و قال، دو شاخوں کے درمیان ایک ڈال، دو رفیقوں کے ہم جولی، جو انہیں گھیرے رہتے۔ اپنی انتہا توجہ کے دائرے میں، ان کے لب سے نکلا ہوا ہر لفظ، ساتھ والوں کے لئے حکم، ساتھی اطاعت شعار، بلند بخت، حق شناس، بریاب، جو تعمیل میں دور پڑتے، نہ ترش رو، نہ زیادہ گو، مخدوم ایسے کہ خادم پر سند، آقا ﷺ ایسے کہ چاند تارے غلام، خورشید اور ماہتاب ان کے پیروں کی دھول، کائنات کے ذرّے ذرّے کا ان کو سلام۔
کیسے کہہ دوں، وہ کیسے ہیں۔‘‘

برادرم ابدال بیلا کی یہ اعلیٰ معلوماتی کتاب 1144صفحات پر مبنی ہے اور اس میں آپ نے رسول اللہ کی پیدائش سے پہلے کے کچھ حالات اور آپ کی حیات مبارکہ کے ہر پہلو ، ہر واقع پر بہت ہی پُر اثر انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ کتاب کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دل و دماغ و روح کے ساتھ یہ سیرت پاک تحریر کی ہے۔ اللہ پاک ان کی کاوش کو قبول فرمائے اور جزائے خیر دے!آمین۔ یہ اتنی اعلیٰ معلوماتی کتاب ہے کہ ملک کی ہر لائبریری، ہر یونیورسٹی، ہر کالج اور ہر دینی مدرسہ میں اسکی موجودگی ضروری ہے۔

(2) دوسری نہایت اعلیٰ اور معلومات سے بھری کتاب ’’حیات صحابہؓ کے درخشاں پہلو۔ جلیل القدر صحابۂ کرام کے حالات زندگی پر مشتمل ایک عمدہ، مُستند اور جامعہ کتاب‘‘ ہے۔ اس کی تالیف جناب عبدالرحمن رافت الباشا نے کی ہے اور ترجمہ جناب محمود احمدغضنفر نے کیا ہے۔

یہ اعلیٰ کتاب ان اعلیٰ کتابوں میں شامل ہے جو الحاج سراج احمد عادل نے قصّص الانبیاء اور جناب شیخ فرید الدین عطارؒ نے تذکرۃُ الاولیاء تحریر کی ہیں۔ جناب غضنفر نے بہت محنت سے نہایت اعلیٰ و سلیس ترجمہ کیا ہے اس قیمتی معلوماتی کتاب میں مصنف نے حضرت سعید بن عامرؓ سے لے کر حضرت عبداللہ بن اُمِّ مکتومؓ (پہلا حصّہ)۔ حضرت مجزاۃ بن ثورؓ سے لے کر حضرت زید بن سہل ؓ (دوسرا حصّہ) حضرت حکیم بن جزامؓ سے لے کر حضرت ابوہریرہؓ (تیسرا حصّہ)۔ آپ نے ہر صحابیؓ کے احوال کے بعد مستند حوالہ جات دیئے ہیں جن سے اس تحریر کی صداقت معلوم ہوتی ہے۔جناب محمود احمدغضنفر نے اس کتاب پر جو تبصرہ لکھا ہے وہ اس کتاب کی بہترین عکّاسی کرتا ہے وہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔شمع رسالت کے پروانے، آسمانِ نبوّت کے چمکتے ستارے، بُستانِ نبوّت کے مہکتے پھول، آفتابِ رسالتؐ کی چمکتی شُعاعیں اور آغوشِ نبوّت کی پروردہ ہستیاں، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ جن کی قدسی صفات کا تذکرہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں میں بھی کیا گیا۔ جنکے سینوں پر انوار رِسالت براہِ راست پڑے۔ جنہوں نے دینِ الٰہی کی سربلندی کیلئے اپنی ہر چیز راہِ خدا میں لُٹا دی۔ بلاشبہ ان کی سیرت کا ہر پہلو درخشاں اور ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔

صحابہ کرامؓ حضور اقدس ﷺ کی زیارت کو ترستے تھے۔آپؐ نے مرض الموت میں جب پَردہ اُٹھا کر دیکھا اور صحابہ کرامؓ کو نماز کی حالت میں دیکھ کر مسکرائے تو صحابہ کرامؓ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی۔حضرت انسؓ فرما تے ہیں! ہم نے حضور ﷺ کے اس سے زیادہ حسین منظر نہیں دیکھا ہے۔کچھ عاشقانِ رسولؐ ایسے بھی تھے جن کو اپنی آنکھیں اِس لئے عزیز تھیں کہ ان سے حضور ﷺ کی زیارت ہوتی ہے۔

ایک صحابیؓ کی آنکھیں جاتی رہیں لوگ عیادت کو آئے تو کہنے لگے یہ آنکھیں تو مجھے اس لئے عزیز تھیں کہ ان سے حضور ﷺ کی زیارت ہوتی تھی جب وہی نہ رَہے تو اب ان آنکھوں کے جانے کا کیا غم ہے؟

کچھ صحابہؓ ایسے بھی تھے جنہوں نے روز روز کا جھگڑا ہی چکا دیا تھا۔ زندگی کا سب کاروبار چھوڑ کر آپ ﷺ کی خدمت کے لئےوقف ہو گئے تھے۔ حضرت بلالؓ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپؐ کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا آپؐ کے گھر کا سب کام کاج حضرت بلالؓ ہی کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ ﷺ سفر کے لئے تشریف لے جاتے، ساتھ ہولیتے، آپؐ کو جوتیاں پہناتے، آپ ﷺ کی جوتیاں اُتارتے، سفر میں آپ کا بچھونا، مسواک، جوتا اور وضو کا پانی ان ہی کے پاس ہوتا تھا، اسی لئے آپؓ کو صحابہ کرامؓ سوادِ رسول ﷺ کہتے تھے یعنی حضورؐ کے میرِساماں۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ آپ ﷺ کے مستقل خدمت گزار تھے آپؐ سفر پر جاتے تو پیدل آپؐ کے ساتھ ساتھ چلتے اور آپ ﷺ کی اونٹنی ہانکتے تھے۔

حضرت انسؓ کو ان کی والدہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت کے لئے بچپن ہی میں وقف کرگئی تھیں۔ حضرت ابوہریرہؓ بھی بارگاہِ رسالت میں ہمیشہ حاضر رہتے۔

دراصل یہی وہ چراغ ہیں جن سے روشنی حاصل کرکے دنیا کے ظُلمت کدے میں سیدھی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔
یہ کتاب صُورُ مِنْ حَیاۃِالصحابہؓ کا اردو ترجمہ ہے جسے الاستاذ دکتور عبدالرحمن رافت پاشا نے محبت بھرے ادیبانہ اسلُوب میں تحریر کیا اور تاریخی واقعات کو نہایت ہی دل پذیر انداز میں قلم بند کیا۔ مطالعہ کرنے سے دِل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسے اُردو میں منتقل کیا جائے تاکہ اُردو طبقہ بھی اس سے مستفید ہوسکے۔

اللہ پاک معلف عبدالرحمن رافت پاشا اور مترجم جناب محمود احمد غضنفر کو جزائے خیر دے اور کرم قائم رکھے۔ آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے