سر رہ گزر… بڑی دیر کی رسمی بیاں لاتے لاتے

وزیراعظم پاکستان محمد نوا زشریف نے کہا ہے: دبئی کمپنی میں عہدہ رسمی تھا، سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا ہے، مگر اب تو فیصلہ محفوظ ہو گیا ہے اس لئے اس بیان یا جواب کا سپریم کورٹ کیا کرے گی، جواب تو وزنی ہے مگر اس کی مدت ختم ہو گئی ہے، بہرحال کیا پتا فیصلہ جب آئے تو میاں صاحب کو خوش کر دے، اس لئے اب وہ یہ معاملہ اپنے اوپر نہیں اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں وہ بھلی کرے گا، حافظ شیرازی کا ایک شعر بڑا مجرب ہے اس کا ورد کیا جائے؎

حافظؔ وصال می طلبِ از رہِ دعاء
یا رب دعاءِ خستہ دِلاں مستجاب کن

(حافظؒ، دعاء کے ذریعے وصل کا طلب گار ہے، یا اللہ ! ٹوٹے دلوں کی دعا قبول فرما)

دلائل تو اب دونوں جانب سے اتنے ہو چکے کہ دلائل الخیرات بن گئے، اب فیصلے کی گھڑی ہے، ہمیں اپنے رب کو راضی رکھنا چاہئے، رادھا بھی صرف اپنے کرشن کے لئے ناچتی تھی، ان شاء اللہ یہ ملک باقی صحبت باقی، اب جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا، آزاد دیانتدار عدلیہ بھی اللہ کی آواز ہوتی ہے، عدل کو راہ دنیا چاہئے، اسی طرح سب پر روشن راستے کھلیں گے۔ انسان کو اپنی تنہائیوں میں اپنی ذات اور صحبت کا بھی جائزہ لینا چاہئے، کہ کیسے اور کیوں سب اچھائیوں پر قلم پھر گیا، مفاد پرست، خوشامد گر کبھی کسی کے نہیں ہوتے یہ اچھے اچھوں کی لٹیا ڈبو دیتے ہیں، تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ محلاتی سازشوں نے محلات اجاڑ دیئے، ایک حدیث مبارک ہے:’’اپنے دل سے پوچھو چاہے کہنے والے کچھ بھی کہیں،‘‘ انسان کا دل، ضمیر ایک ایسا باطنی پہرہ ہے جو الارم کر دیتا ہے مگر ہم اس کی آواز ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کا پہیہ نہیں رکنا چاہئے بشرطیکہ پہیہ لوگوں کو نہ کچلے۔

٭٭٭٭

کچھ اس نے کہا کچھ میں نے سنا

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان:کلب کے پاس مجھے دی گئی رقم کا ریکارڈ نہیں، خواجہ آصف کے الزام جھوٹے، کینسر ہو سکتا ہے۔
یہ تو سنا تھا جھوٹ بولے کوا کاٹے مگر یہ نہیں سنا کہ جھوٹ بولے کینسر ہووے، تحقیق کر لینی چاہئے کہ کیا واقعی ’’پری پیکر‘‘ کے پاس عمران خان کی رقم کا ریکارڈ نہیں جو لوگ ذرا سی تکلیف پر سیدھے لندن سے شفا پاتے ہیں ان کے لئے کیری پیکر تک رسائی کیا مشکل ہے اگر وہ کہہ دیتا ہے کہ سسیکس کلب 20سال پرانا ریکارڈ نہیں رکھتا تو پھر خان کی کوئی سکہ بند خیانت تلاش کرنا چاہئے جس کا ریکارڈ بھی ہو، خان صاحب کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ خواجہ آصف کو بھی کینسر ہو سکتا ہے، جہاں سیاست خود ایک کینسر بن جائے بھلا وہاں اس کینسر کا کیا ذکر جس کا علاج شوکت خانم ہسپتال میں ہوتا ہے، جو لوگ خیراتی کام کرتے ہیں انہیں اس کارخیر کا طعنہ نہیں دینا چاہئے، عمران خان ہوں یا اسحاق ڈار خیراتی کام بھی کرتے ہیں، ایک یتیموں کی دوسرے مریضوں کی خدمت کرتے ہیں اب دیکھتے ہیں یتیموں اور مریضوں کی دعائوں میں سے کس کی دعا قبول ہوتی ہے، عمران خان نے پاناما کا پنڈورا باکس کھولا، صدر پاکستان نے پاناما لیکس کو اللہ کی پکڑ کہا، اب انتظار کیا جائے کہ یہ محض ڈھنڈورا باکس تھا یا خدا کی پکڑ، ہم اتنا عرض کر دیں کہ اس ملک میں اگر احتساب شروع ہو ہی گیا ہے تو پھر اس جل میں اور بھی بہت سے مگر مچھ ہیں بیچاری ستھری مچھلیوں کے سوا ان کو بھی انصاف کے کٹہرے میں باری باری لایا جائے شاید قربانی والی عید سے پہلے قربانی قبول ہو جائے، وہ جو آج ایک بار پھر جمہوریت کو بچانے خان کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے ہیں ان کے بستے بھی چیک کئے جائیں کہ کل کتنے بستے ہیں ان کے، ہمارا مطلب ہے بستہ الف سے 10اور بستہ یے تک، ہماری زبوں حالی کا اب یہ حال ہے کہ کھانے سے پہلے نوالہ روک کر سوچتے ہیں یہ ایک نمبر ہے یا دو نمبر، اگر ملاوٹ و جعلسازی کے مجرموں کو چوراہے میں پھانسی دی جائے تو اس پاک وطن سے ناپاکی ختم ہو سکتی ہے، آخر میں بچھو پکڑنے کا منتر بتا کر بات ختم کرتے ہیں منتر یہ ہے ’’کالا بچھو دوڑا بچھو سب بہ یک زنجیر بستم‘‘

٭٭٭٭

ملکۂ کوہسار کی درگت

جب ہم نے ملکۂ کوہسار کی سب چھاپ تلک چھین لی تو اس نے کچرے، بدبو اور غلاظت سے اٹی اپنی مانگ کھجلاتے ہوئے تنگ آ کر کہا پہلے آئو پہلے گند پائو! مری، وطن عزیز کا و ہ صحت افزا مقام ہے جہاں شاہ سے گدا تک سب آتے ہیں مگر؎
عوام کا مری اور ہے حکمراں کا مری اور
ہم اس مری کی بات کر رہے ہیں جہاں عوام گند ڈالتے ہیں ارباب اقتدار نے ہوٹلوں، ریستورانوں، دکانداروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ گند خریدو گند بیچو اور ایک سیزن میں سال بھر کے پیسے کما لو، انتظامیہ، فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور حکمرانوں نے عوامی مری کو اس لئے فری ہینڈ دے رکھا ہے تاکہ پتا چلے کہ ان کا مری اور ہے عوام الناس کا مری اور، ان کی حیثیت شان و شوکت اور ہے عام لوگوں کی حالت زار اور اس لئے کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے، جہاں شاہی مہمان خانے، محلات اور سیکرٹریٹ ہے وہاں ملکہ کوہسار کی چھوٹی بہن کی شان ہی کچھ اور ہے، عوامی مری یعنی ملکہ کوہسار وڈی کے مال پر جائو تو وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے؎

تو کھینچ میری فوٹو او پیا!

اب تک اس خوبصورت دلکش مقام میں کسی بھی حکومت کی جانب سے کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی، مری میں بہت سی گلیات ہیں، مگر وہاں امراء کے محل ہیں، ان کی سڑکیں بھی الگ شان بھی الگ، مری جانے والے عام لوگوں کا پرانا طریقہ ہے کہ جہاں کھائو وہیں غلاظت کے انبار لگا دو تاکہ معلوم ہو کہ؎


ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے بدبو نقش پا کی

ہمارے حکمرانوں کا مزاج یہ ہے کہ جو کریں گے اپنے لئے کریں گے اس کے سوا کچھ نہیں کریں گے، مری کی مہنگائی، غلاظت، ہوٹلوں کے کرائے ایسے ہیں کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے۔

٭٭٭٭

حیرت سے تک رہا ہے جہاںِ وفا مجھے

….Oوزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف:الزام تراشیاں کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا،
سولہ آنے ٹھیک بات کہ اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے،

….Oبھارت میں مذہبی جنونی ہندو غنڈوں نے مسلمان باڈی بلڈر مار دیا،
بھارت کو پھر کسی ایسٹ انڈیا کمپنی یا نادر شاہ درانی کا انتظار ہے، ہمارا انتظار وہ کب کا ترک کر چکا ہے۔

….Oپی پی رہنما فریال تالپور بینظیر ایئر پورٹ پر واش روم میں پھنس گئیں، تالا خراب تھا بند ہو گیا کھلا ہی نہیں،
ایئر پورٹ اور وہ بھی بینظیر ایئر پورٹ، ناقص تالے لگائے جاتے ہیں، شاید یہ تالا بھی لگانے والوں کی طرح دو نمبر تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے