اسلام اور جمہوری اقدار

اسلام فرد اور معاشرے دونوں سے بحث کرتا ہے۔اسی طرح اسلام ان دونوں اجزاء کی بھترین نشونما کے لیے وہ اصول فراہم کرتا ہے کہ جسکا ثانی ہی کوئی نہیں۔بلکہ فرد کے مقابلے میں اجتماعی امور کو ذیادہ اہم قرار دیا۔اسلیے معاشرے کے بہترین نشونما کے لیے افراد کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا اسلام کا خاصہ ہے۔ جب ہم بات کرتے ہے جمھوری اقدار کی تو شائد کہ دنیا کا کوئی بھی موجودہ مذہب اس اس قسم کی قدریں پیش کر سکے۔ جب ہم اسلام کے ہم عصر نظام حکومت کو دیکھتے ہے۔تو ہمیں نظر آتا ہے مطلق العنان بادشاہ چاہے وہ فارس کے خسرو پرویز ہو یا روم کے ہرقل قیصر وہاں بادشاہ کا حکم حرف اخر تصور کیا جاتا تھا۔

وہاں عوام کی یہ حالت تھی کہ بادشاہ کے وزیروں اور عمال کے لیے بس ٹیکسوں کے ادائیگی کا ذریعہ تھی۔اور باہمی جنگیں یہ زور مزید ناتوں عوام کے کندھوں پر ڈال دیتی تھی۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دولت وہ خزانوں کی زینت تھی۔فقط بادشاہ ہی اسکا مالک جیسے چاہے خرچ کرتا۔ مگر دوسرے سائیڈ پہ اسلام نے شورائی نظام کی طرح ڈالی۔ سورۃ شوری میں اللہ تعالی مومین کی صفت بیان کرتے ہے کہ مہتم بالشان کام انکا مشورہ سے ہوتا ہے۔و امرھم شوریٰ بینھم۔انہی جمھوری اقدارکی مثالیں ہمیں نبی علیہ السلام کی سیرت کی میں بے شمار ملتی ہے۔

حضرت بریرہ رض کو نبی علیہ السلام حضرت مغیث رض کی سفارش کرتے ہے۔تو حضرت بریرہ نے فرمایا یا رسول اللہ حکم ہے کہ مشورہ ۔نبی علیہ السلام فرماتے ہے مشورہ۔تو حضرت بریرہ نے فرمایا پھرمیں مشورہ قبول نہیں کرتی۔یعنی عورت کو رائے کےاظہار کی اذادی دی بلکہ اسے قبول بھی کیا۔

اسی طرح جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کرکے اکثریت کی رائے کو قبول کیا۔جنگ احد میں اکثریت نوجوان صحابہ کے رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی۔ایسے بے شمار واقعات یہ معمولی واقعات نہیں بلکہ جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا۔اسی طرح ایک موقع پر جنگی قیدیوں کے واپسی کے لیے وفد ایا۔نبی علیہ سلام نے لوگوں سے مشورہ کیا سب نے واپسی پر رضا مندی دکھائی۔مگر پھر بھی آذادی رائے کی خاطر فرمایا جاو اور اپنے اپنے قبیلوں کےسرداروں کو اپنی آرا سے باخبر کردو۔کیونکہ یہاں کوئی میری خاطر اپنی رائے کے خلاف نہ ہو۔چنانچہ واپس اکر سرداروں نے لوگوں کی رائے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھی۔شخصی آذادی کا اس سے بہتر مثال اور کہاں ہوگا۔

اسی طرح عدل قانون کا یکساں ہونا کہ اپنی بیٹی فاطمہ کے بارے میں فرمایا اللہ کی قسم کہ اگر یہ چور فاطمہ بنت محمد نے بھی کی ہوتی تو اسکا بھی ہاتھ کاٹا جاتا۔ باوجود یہ خلافت کا منصب کتنا اہم ہے مگر کسی کو نامزد نہیں کیا۔بلکہ اسے مسلمانوں کے صواب دید پر چھوڑا۔یہ رائے کے اظہار کا احترام ہی تو تھا۔

امام ماوردی رح حلیفہ کے بیعت کے بارے میں فرماتے ہے۔کہ انعقاد خلافت کے بعد بھی کوئی شخص مطمئن نہیں۔اور وہ امام کے حلقہ ادارت میں شامل نہ بھی ہونا چاہے تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ لانھا عقد مراضاۃ و اختیار لا یدخلہ الاکرہ والاجبار۔یہ ایسا معاہدہ ہے کہ جس کا تعلق سراسر رضامندی اور اختیار سے ہے۔جبر و اکراہ کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اسی طرح خلفائے راشدین کا دور جمھوری اقدار کے عملی نمائش کا بھترین دور ہے۔عام آدمی بھی نقد کرتا ہے۔بدو بھی خلیفہ وقت سے اسکے دوسرے چادر کا احتساب کرتا ہے چادر کہاں سے ملا۔جھاں خزانہ عوام کی ملکیت تھا نہ کہ افسر شاہی اور حکمران طبقے کا۔

اس حوالے سے حضرت ابوبکر کا ابتدائی خطبہتاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اج تک کوئی بھی لٹریچر اسکا متبادل پیش نہ کر سکا۔فرمایا ان احسنت فاعینونی۔اگر میں تمھیں گڈ گورننس دیتا ہوں۔تو میرے ہاتھ اور پاؤں بن جاو۔و ان اسئت فقومونی اور اگر میں گڈ گورننس نہ دے سکا تو مجھے ٹھیک راستہ دکھاو۔عمر رض نے اپنے گورنر کےبیٹے کو اسکے سامنے سزا دی۔اور قانون سب کے لیے ایک ہونے کی اعلی مثال قائم کی۔اثاثوں کے اعلان کا نظام حضرت عمر نے تشکیل دیا۔عوام کے جان و مال کو یقینی تحفظ فراہم کیا۔ تاریخ کی ایسی درخشند مثال قائم کی کہ انسانیت آج ان کے کارناموں پر بجا فخر کر سکتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی ثمرات سے مستفید ہو سکتے ہے بشرط یہ کہ ان جمھوری قدروں کو ہم اپنے یہاں بھی پروان چڑھائے۔لوگوں میں شعور اجاگر کریں۔یقینا ہماری قوم بھی دنیا کے زندہ اقوام میں شمار ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے