فیصلو ہو تو جہان خان جیسا ورنہ نہ ہو!

بادشاہ کی طرح انصاف کا مزاج بھی شاہانہ و زود رنج ہے۔ خوش ہوا تو پھکڑ لطیفے پر جاگیر بخش دی۔ ناخوش ہوا تو بارِ دگر وہی پھکڑ لطیفہ سنانے پر مسخرے کی گردن اڑا دی۔

پھر ایسے واقعات عوام میں لطائف کی صورت سفر کرتے ہیں۔ نظام سے متعلق جتنے بھی لطائف ہیں وہ طاقت کی پیروڈی کے سوا کیا ہیں؟

مثلاً بہت سال پہلے ملکِ عجم میں سرسری سماعت کی ایک عدالت میں چوری کا مقدمہ پیش ہوا۔ ملزم نے اپنی صفائی دینا شروع کی۔ کچھ دیر بعد جج صاحب نے پہلو بدلتے ہوئے کہا عدالت کے پاس لامتناہی وقت نہیں، آپ اگلے دس منٹ میں بیان مکمل کرلیں، ہمیں سزا بھی سنانی ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک شام میں کوئی لال بجھکڑ قاضی بن گیا۔ اس نے رعایا کو فوری انصاف فراہم کرنے کی یہ ترکیب نکالی کہ مدعی اور مدعا علیہہ کو آمنے سامنے کھڑا کیا جاتا اور قاضی صاحب اپنی شہادت کی انگلی دونوں کی جانب باری باری اٹھاتے ہوئے کہتے، ’اکڑ بکڑ بمبے بو، اسی نوے پورا سو۔۔‘ جس پر سو ختم ہوتا وہی مجرم قرار پاتا۔

سینکڑوں برس پہلے ملک چین میں کسی پہاڑی چشمے پر بھیڑ کا بچہ پانی پی رہا تھا۔ اس سے ذرا اوپر ایک لگڑبگا اسے بھوکی نظروں سے گھور رہا تھا مگر بلاوجہ بچے کو ہڑپ کرنا ضمیر کو گوارا نہ تھا لہٰذا اس نے بچے پر الزام لگایا کہ تم میری طرف آنے والا پانی گدلا کیوں کر رہے ہو؟ بھیڑ کے بچے نے کہا حضور میں کیسے گدلا کرسکتا ہوں، آپ چشمے کے اوپر کی طرف کھڑے ہیں میں نیچے کی طرف ہوں۔

وار خالی گیا تو لگڑبگے نے ڈپٹتے ہوئے پوچھا اچھا یہ بتاؤ تم نے اسی چشمے پر پانی پیتے ہوئے سال بھر پہلے میرا منہ کیوں چڑایا تھا؟ بچے نے کہا حضور میری تو عمر ہی ابھی چھ ماہ ہے، میں سال بھر پہلے یہ گستاخی کیسے کر سکتا تھا؟ لگڑبگے نے خجالت چھپاتے ہوئے کہا اچھا وہ تم نہیں تھے پھر وہ یقیناً تمھارا باپ ہو گا۔ تمہاری شکل ہو بہو اسی جیسی ہے لٰہذا تم بھی کبھی نہ کبھی میرا منہ ضرور چڑاؤ گے۔ اس جواز کے تحت لگڑبگا بھیڑ کے بچے کو ہڑپ کر گیا۔

سنا ہے سندھ میں کوئی وڈیرہ جہان خان نامی گزرا ہے۔ اس کے فیصلو آج تک سندھ میں ضرب المثل کے طور پر زبان زدِ عام ہیں۔ فیصلو ہو تو جہان خان جیسا ورنہ نہ ہو۔۔۔

پچھلے تین دن سے میری نیند اڑ چکی ہے کیونکہ میرے ایک جاننے والے نے مجھ سے تحریری وعدہ کیا ہے کہ وہ میرا اپارٹمنٹ 30 جنوری 2018 تک 50 لاکھ روپے میں خرید لے گا۔ اب مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جس کاغذ پر یہ وعدہ تحریر ہوا ہے اس کاغذ کی ویلیو کیا ہے؟ زیرو یا پھر 50 لاکھ۔

سالانہ ٹیکس ریٹرنز بھرنے والے میرے وکیل کا کہنا ہے کہ اس کاغذ کی ویلیو صفر ہے کیونکہ ابھی آپ کو رقم کی ادائیگی ہونا باقی ہے اور آپ رکنِ اسمبلی بھی نہیں ہیں۔ ورنہ تو یہی کاغذ 50 لاکھ کا ہوتا اور آپ کو بطور اثاثہ ڈکلیئر کرنا پڑتا۔ مگر میں اب بھی مطمئن نہیں کیونکہ یہ جو وکیل ہوتے ہیں نا یہی چوڑے میں مرواتے ہیں اور پھر کہتے ہیں وکیل کبھی نہیں ہارتا موکل ہارتا ہے۔

ایک صاحب نے مجھے ای میل بھیجی کہ قانون بڑی ظالم شے ہے۔ بڑے جرائم بھلے پکڑ میں نہ آئیں مگر کوئی ایک معمولی خطا بھی گرفت میں آ جائے تو ساری سیان پتی اور اگلے پچھلے حساب برابر کر دیتی ہے۔

مثلاً ایل کپون 1920 کے عشرے کے شکاگو میں شراب کے دھندے کا بادشاہ تھا۔ اس کے گروہ نے سات برس کے عروج میں بہت سے جرائم پیشہ حریفوں کو ٹھکانے لگایا۔ شکاگو کے میئر اور پولیس چیف کا بھی اس کے سر پے ہاتھ تھا۔ ایل کپون خیراتی اداروں کی بھی دل کھول کر مدد کرتا تھا لہٰذا عوام میں اس کی شہرت رابن ہُڈ اور سلطانہ ڈاکو جیسی تھی۔

پھر ایک روز ایل کپون کو کسی قتل یا شراب کے غیر قانونی دھندے کی پاداش میں نہیں بلکہ ٹیکس چوری کے الزام میں دھر لیا گیا اور عدالت نے 11 برس کے لیے جیل بھیج دیا۔ رہائی کے پانچ برس بعد ایل کپون کا گمنامی میں ذیابیطس کے سبب انتقال ہو گیا۔پس ثابت ہوا کہ ذیابیطس ہو کہ ضیا بیطس، کسی کو بھی لاحق ہونا اچھا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے