شہباز شریف کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں ضمنی الیکشن لڑنے کی مخالفت

پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ اگر شہباز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں انتخابات سے قبل وزیراعلیٰ کے عہدے کو خیر باد کہنا چاہیے۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے اس خوف کا اظہار کیا کہ پنجاب حکومت قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی فنڈز جاری کرسکتی ہے، جس میں ٹیمپل روڈ، موزنگ، انارکلی، لیٹن روڈ، نشاۃ روڈ اور اسلام پورہ کی تعمیر شامل ہیں، اس کے علاوہ شہباز شریف کے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے اور مستعفی نہ ہونے کی صورت میں وہ الیکشن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ شہباز شریف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 پر ممکنہ طور پر ستمبر میں ہونے والے انتخابات تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گے، اس حوالے سے کوئی قانونی مسائل درپیش نہیں، اس لیے شہباز شریف نے منصب چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا‘۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان رواں ہفتے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 پر ستمبر میں انتخابات کرانے کا ممکنہ شیڈول جاری کرسکتی ہے، یہ نشست سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد خالی ہوئی تھی، سابق وزیراعظم نے اس نشست پر 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار یٰسین راشد کو 40 ہزار ووٹ سے شکست دی تھی۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ ’اگر شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں ضمنی انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے قبل وزیراعلیٰ کا منصب نہ چھوڑا تو ہم صرف پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج نہیں کریں گے بلکہ ساتھ ہی عدالت کا رخ بھی کیا جائے گا‘۔

پنجاب حکومت کے اس دعوے کہ شہباز شریف اپنے موجودہ منصب پر برقرار رہتے ہوئے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ کے منصب پر رہتے ہوئے وہ پنجاب کے کسی بھی حلقے میں ہونے والی الیکشن مہم سے متعلق عوامی ریلی میں شرکت بھی نہیں کرسکتے، وہ منصب پر برقرار رہتے ہوئے اپنی مہم کا حصہ بھی نہیں ہوسکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن شہباز شریف کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کے خلاف نہیں جانے دے گی۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر قاضی احمد سعید نے تسلیم کیا کہ ’ہماری پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے قبل وزیراعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اخلاقی جواز نہیں رہتا‘۔

اس حوالے سے قانونی پیچیدگیوں پر بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ قاضی مبین نے کہا کہ ’کسی قانون کے تحت صوبائی اسمبلی کی نشست رکھنے والے ایک فرد کو قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے سے قبل مستعفی ہونے کی ضرورت نہیں، وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے عہدے اور صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت میں قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات میں اُمیدوار ہوسکتے ہیں‘۔

تاہم وکیل نے واضح کیا کہ شہباز شریف کو اپنی الیکشن مہم کے دوران ریاستی مشینری اور پروٹوکول استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ قاضی مبین کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندی وزیر کی جانب سے کسی اور اُمیدوار کی الیکشن مہم سے متعلق ہے، اس کا اطلاق اپنی ذاتی اپنی الیکشن مہم پر نہیں ہوتا‘۔

دوسری جانب صوبے کے ایک لاء افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’اگرچہ اپنی پہلی نشست پر رہتے ہوئے کسی اور حلقے سے الیکشن لڑنے پر براہ راست پابندی نہیں ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق شہباز شریف کے لیے ان کے موجودہ منصب پر رہتے ہوئے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے میں مشکلات کا سبب ہوسکتے ہیں‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے