ملتان میں درندگی کا کھیل اورہم سب

کچھ روز قبل میڈیا پرجنوبی پنجاب کے علاقے ملتان سے ایک دل دہلا دینے والی خبر ظاہر ہوئی، جسے پڑھ کر یقیناًہر شخص کہ رونگٹے کھڑے ہوگئے ہونگے ۔ ہر درد دل رکھنے والا شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ اب اس حد تک آپہنچا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو اپنا منصف مان رہے ہیں کہ جو کسی کے جرم کی سزا کسی معصوم کو دے دیتا ہے، کیا عدل و انصاف اس دھرتی سے اٹھ چکا جو کسی بے غیرت بھائی کے کئے کی سزا ایک معصوم اور بے قصور بہن کو بھگتنی پڑ ے گی!

20 جولائی کو ملک بھر کے الیکٹرانک میڈیا سے خبریں نشر ہوئیں کہ ملتان کے قریبی علاقے میں26 افراد پر مشتمل جرگے (پنچائت)کے فیصلے پر اپنے بھائی کے کئے کی سزا کے طور پر17 سالالڑکی کو انتقامی طور پر جنسی زیادتی کا نشانا بنایا گیا ۔ بتایا جا رہا تھا کہ کچھ روز قبل ایک 12 سالا لڑکی کو گاؤں کہ با ہر ایک گاؤں ہی کے ایک اوباش نوجوان کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھاجس کے بعد پنچائت کے فیصلے پر ملزم کی چچا زاد بہن کو برہنہ کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس افسوسناک واقعے کہ بعد ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ بلاخر ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے؟ یہ ہم کہاں آکر رکے؟ جہاں اس طرح کہ انسانیت سوز فیصلے سنا ئے جارہے ہیں، جہاں انصاف کے نام پر انصاف کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ ایک پل بھی ہم یہ سوچیں کہ چند لوگوں کیجانب سے کئے گئے اس طرح کے فیصلے سے ایک معصوم بچی کی زندگی پر کتنا اثر پڑا ہوگا۔کیا یہ بچی ان ظالموں کے ایک غیر انسانی فیصلے کے لیے ہی پید ہوئی تھی؟

ہم ذرا سوچیں کہ اس زیادتی کرنے والے شخص کا عمل بہت ہی برا تھا جو ناقابل معافی ہے، جس کی ملکی آئین اور قانون میں کڑی سے کڑی سزا متعین ہے مگر کیا جرگہ کا فیصلہ سنانے والوں کا یہ عمل قابل معافی ہے ؟ انفرادی طور پر ایسے برے عمل کی جب قانون میں کڑی سے کڑی سزا ہے تو بیشک ایسا فیصلہ سنانے والے بھی اس جرم میں اتنے ہی مرتکب ہیں جیسا کہ وہ ایک شخص جس نے کسی معصوم کی زندگی تباہ کی تھی۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جرگہ والوں کو سخت کارروائی کا حکم دیا ہے اور معاملے کی تفتیش کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے، ایسے جرم کے مرتکب افراد کی گرفتاری بھی عمل میں آچکی ہے اور انہیں سزا بھی ملے گی۔ مگر کیا اس سے ان زیادتی کا شکار لڑکیوں کو انصاف مل جائے گا؟

جنوبی پنجاب یا ملتان میں اپنی نوعیت کا پیش آنے ولا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعے روزانہ کی بنیاد پر اسی معاشرے میں رونما ہورہے ہیں جس میں پنچائت کے فیصلے پرکبھی ایک معصوم لڑکی کوغیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی ایک معصوم بچی کو وٹا سٹا پر کسی کے حوالے، کبھی ایک نابالغ کم سن بچی کی شاد ی کردی جاتی ہے، اورپھر کسی موڑ پر اسکا وجود ہی ختم کردیا جاتا ہے یا پھر وہ خود پر کئے جانے والے مظالم سے تنگ آکر اپنے معصوم بچوں کہ ساتھ ہمیشہ کہ لیے اپنی ندگی کا دیا بھجا دیتی ہے۔

مجھے اپنے ملک کی اس میڈیا پربھی حیرانگی ہوتی ہے جو کہنے کو تومعاشرے کا آئینہ ہے جو معاشرے کواس کا اصل چہرا دکھانے اورمظلوموں کی آواز کو اعلیٰ ترین ایوانوں تک پہچانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے ، پر ہم اگر ملتان میں پیش آئے اس واقعے اور اس جرگہ کی ہی بات کریں تو وہ ایک دن تو سرخیوں کی زینت بنی لیکن اگلے ہی دن وہ اخبار کے کسی گمنام گوشے اور پھر اخبار کے صفحات سے ہی غائب ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ میڈیا کو تو اس وقت ایک جمہوری وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی خبر مل گئی ہے! جمہوریت کو کہیں خطرہ لاحق نا ہو اس پر بات ہورہی ہے مگر اسی جمہوری نظام میں قائم ایک جرگہ، ایک پنچائت کے فیصلے پر کوئی بھی بات نہیں ہورہی جس نے نہ جانے کتنی معصوم زندگیوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، کیا یہی جمہوریت کا حسن ہے جسے ہم بچانے کے جتن کئے جارہے ہیں؟

کیا یہی ہے اس ملک میں انصاف کا نظام کہ یہاں احتساب کے نام پر تو دن رات عدالتیں مصروف عمل رہتی ہیں لیکن پھر بھی آخر کیوں ایک عام آدمی اپنے لئے انصاف کی تلاش میں کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے پچائتوں کے چوکھٹ پر گھٹنے ٹیک دیتا ہے!؟دیہی علاقوں پر مقیم اس ملک کی 70 فیصد آ بادی ا نصاف کی راہ میں حائل کئی رکاوٹوں کے باعث اکثر عدالتوں اور ریاستی اداروں کے بجائے پنچائتوں سے اپنے حق میں انصاف طلب کرنے جا پہنچتی ہے۔عدالتوں میں سالہا سال لٹکتے مقدمات بھی ایک سبب ہیں کہ لوگ عدالتوں کے بجائے پنچائتوں اور جرگو ں کا رخ کرتے ہیں تا کہ انہیں جلد انصاف مل سکے۔ پر انہیں پنچائتوں کے غیر منصفانہ فیصلوں کہ باعث اس طرح کہ انسانیت سوز فیصلے ہمارے سامنے آتے ہیں۔

ہم روزانہ معصوم جانوں سے کھلواڑکے قصے سنتے ہیں پر آج تک ان فیصلوں کی بنا پر ان چند لوگوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے نہ ہی کسی کو سزا آتے ہوئے سنا ہے جو کہ ہمارے سماج کہ لیے ایک بہت ہی بڑا ناسور بنتا جارہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے حکمران جو ہمیں تگڑا انصاف دلانے کی باتیں کرتے ہیں انہیں عملی جامہ پہنایا جائے اور ہمیں اپنے آئین اور قانون میں بھی ترامیم کر کے ایک عام انسان تک جلد انصاف کی رسائی کو ممکن بنانا ہوگا، اور پنچائت کہ اس طرح کہ فیصلوں میں مرتکب افراد کو بروقت سزا سنائی جائے تاکہ اس انسان دشمن پنچائت کہ نظام کو ہمیشہ کہ لیے ختم کرے ملک میں ہر شخص کی انصاف تک رسائی ممکن بنائی جائے تا کہ ہمارے معاشرے میں جرگہ کہ ذریعے کسی کی زندگی تباہ نہ ہو سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے