قائد اعظمؒ اور آئین کی دفعہ 62 ‘ 63

بقول ایئر مارشل (ر) اصغر خان: ”14 اگست 1947ء قائد اعظمؒ نے ماؤنٹ بیٹن کو استقبالیہ دیا۔ مسلح افواج کے افسروں کا ایک گروپ بھی مدعو تھا۔ میں اور اکبر خاں اس میں شامل تھے۔ اکبر خاں کہنے لگے: ”چلیں قائدؒ کے ساتھ بات کرتے ہیں‘‘۔ چنانچہ ہم ان کے پاس گئے۔ اکبر خاں نے کہا، ”سر، ہم آزادی اور ظہور پاکستان پر بہت خوش ہیں۔ لیکن نئے نظام کے متعلق ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک وہی نوآبادیاتی ڈھانچہ ہے (انہوں نے خاص طور پر انگریز افسروں کا حوالہ دیا)۔ ہمیں ان کی جگہ اپنے جینئس لوگ لا کر تبدیلی لانی چاہیے‘‘۔ وہ اسی انداز میں بولتا چلا گیا۔ قائدؒ نے اکبر خاں پر حقارت کی نگاہ ڈالی اور اپنے مخصوص انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے اسے ڈانٹا: ”دیکھیں! آپ ایک سپاہی ہیں۔ آپ کا کام حکومت پر تنقید کرنا نہیں۔ آپ کو اپنے پیشے کی طرف توجہ دینی چاہیے‘‘۔
(راولپنڈی کانسپریسی 1951ء۔ حسن ظہیر۔ 1998ء۔ صفحہ XIV۔ آکسفورڈ)۔

جس جنرل اکبر نے سیاسی حکومت پر تنقید کی اور قائد اعظمؒ نے اس پر حقارت کی نگاہ ڈالی اور اسے ڈانٹتے ہوئے اپنے پیشے کی طرف توجہ دینے کی تلقین کی، وہی جنرل اکبر پاکستان کی پہلی آئینی، سیاسی اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں پکڑا گیا‘ جو پنڈی سازش کہلائی۔

اپنے قیامِ کوئٹہ کے دوران میں جب قائداعظمؒ کو ایک دو فوجی افسروںکے ساتھ گفتگو کے دوران میں معلوم ہوا کہ وہ افواجِ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے حلف کے منشا سے کماحقہ‘ آگاہ نہیں تو، 14 جون 1948ء، سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کے دوران میں قائداعظمؒ نے پُرزور لہجے میں انہیں آئین کے مطالعے اور اس کے صحیح آئینی اور قانونی منشا اور معانی کو سمجھنے کی تلقین کی۔ اس کے باوجود پاکستان کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خاں نے عین اس وقت سیاسی ماحول کی بساط لپیٹ دی جب چار ماہ بعد عام انتخابات ہو رہے تھے اور پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ خان عبدالقیوم خاںکی قیادت میں اور پاکستان عوامی لیگ حسین شہید سہروردی کی سربراہی میں پشاور سے سلہٹ تک انتخابات کے لیے سرگرم عمل تھیں۔ آئین منسوخ ہوا۔ اور سیاستدانوں کی وہ کھیپ سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دی گئی جس نے گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی قیادت میں ایک انہونی کو دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کے روپ میں ہونی کر دکھایا تھا۔ مارشل لا نافذ کرنے کے دو ماہ 17 روز بعد قائداعظمؒ کے یوم پیدائش پر اپنے پیغام میں جنرل ایوب خاں نے آئین منسوخ کر دیے جانے کے باوجود قائداعظمؒ کے اصولوں پر چلنے کا عزم ظاہر کیا۔

اصولوں سے بھری قائداعظمؒ کی 42 سالہ سیاسی اور جمہوری زندگی پر اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص بندہ ہی چل سکتا ہے۔ ہر کہ و مہ کو یہ سعادت کہاں حاصل! لیکن ان کے چیدہ چیدہ اور نمایاں اصولوں پر چل کر بھی ہم اپنی بگڑی سنوار سکتے ہیں۔ اور سنورے ہوئے روزوشب کو مزید نکھار سکتے ہیں۔ مثلاً، قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء والی تقریر‘ جو انہوں نے بانیٔ پاکستان اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے کی، جو ہمارا میگنا کارٹا ہے، اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ جنرل ایوب خاں سیاستدانوں کے سخت بیری تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اس میگنا کارٹا سے بھی الرجک رہے، جس میں قائداعظمؒ نے کہا تھاکہ اس وقت”جو بڑی لعنتیں مسلط ہیں ان میں رشوت خوری اور بے ایمانی بھی شامل ہیں۔ ہمیں ان کو فولادی پنجہ سے ختم کردینا ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ اس اسمبلی میں بہت جلد ایسے کافی فیصلے کریں گے جن کے ذریعہ ان لعنتوں کو جلدازجلد ختم کر دیا جائے۔ یہ واقعی ایک زہر ہے‘‘۔

بلیک مارکیٹنگ اور ناجائز منافع خوری کے متعلق فرمایا:”چوربازاری اور نفع خوری بھی ایسی لعنتیں ہیں جو عوام کے لیے سخت مصیبت کا باعث بنتی ہیں اور جن سے حکومت کا کام مشکل ہوتا ہے۔ آپ کو اس بھوت سے بھی جنگ کرنا ہے جو اس زمانہ میں جبکہ ہماری حالت خستہ ہے، ہمارے پاس سامانِ خوراک اور ضروری اشیا کی کمی ہے، یہ چیزیں معاشرتی جرم ہیں۔ چور بازار والوں کو شدید ترین سزا ملنی چاہیے کیونکہ اس سے کنٹرول کا سارا نظام اور سامانِ خوراک کی تقسیم درہم برہم ہو جاتی ہے۔ دوسری چیز جو میری روح کو تکلیف پہنچاتی ہے، بے ایمانی اور رشوت خوری ہے۔ اور میں اس بات کو صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کی رشوت خوری اور بے ایمانی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ نہ کسی اثر کو قبول کروں گا جو براہ راست یا گھما پھرا کر مجھ پر ڈالا جائے…..

”میں پاکستان کی اقلیتوں سے بھی کہہ دینا چاہتا ہوں….. تم میں سے ہر ایک چاہے تمہارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو۔ چاہے تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو۔ اول بھی اس ریاست کا باشندہ ہو گا دوئم بھی۔ اور آخر میں بھی۔ تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی…..

”حکومت پاکستان میں تم کو اپنے مندروں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو اس سے پاکستان کی حکومت کو کوئی تعلق نہیں ہے….. ہم اس بنیادی اصول کے ماتحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں (پُرجوش تالیاں)….. میں ہمیشہ انصاف اور رواداری کے اصولوں پر بغیر کسی تعصب یا نفرت کے عمل کروں گا۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ کے اشتراک و تعاون سے پاکستان دنیا کی ایک عظیم الشان ریاست ہو جائے گا۔(پُرجوش تالیاں)۔

قائداعظمؒ نے اپنی اس تاریخی اور رہنما تقریر کے آخر میں کس کے اشتراک و تعاون سے پاکستان کو دنیا کی ایک عظیم الشان مملکت بنانے کی توقع کی؟ ارکانِ اسمبلی کے اشتراک و تعاون سے، جن کے وجود سے جنرل محمد ضیاء الحق اس قدر متنفر رہے کہ آئین کی دفعہ 62، 63 میں اپنی مرضی کی ترمیم کر ڈالی۔ جب آپ کہتے ہیں کہ وہی شخص اسمبلی ممبر بن سکتا ہے جو اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ہو، تو پھر غیرمسلم تو اس کا رکن نہیں بن سکتا جس کے متعلق قائداعظمؒ نے واضح کر دیا تھا: ”تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی‘‘۔ اس دفعہ میں ایک شرط ہے: ”اس نے کبھی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہ کیا ہو‘‘۔ اسے کیسے چیک کریں گے؟ اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب پاکستان پر جان نچھاور کر دیتا ہے اس کے مقابلے میں عشا کے وضو سے نمازِ فجر ادا کرنے والا ”را‘‘ کا فکری ایجنٹ ہو تو کہاں گئی آپ کی یہ شرط؟ رہی صادق اور امین ہونے کی پابندی۔ یہ شرط عائد کرنے والا جنرل محمد ضیاء الحق کس قدر صادق اور امین تھا؟ وہ خود خائن تھا۔ اٹھائے ہوئے اپنے حلف کی خلاف ورزی کا علانیہ مرتکب۔ آئین کی دفعہ 6 ایسے ہی صادقوں اور امینوں کے لیے تھی۔ اس پر تو آج تک عمل نہیں ہوا۔ ہمارے اُس امیرالمؤمنین نے بلیک مارکیٹروں، منافع خوروں، رشوت خوری اور بے ایمانی کی بیخ کنی کے لیے تو کوئی دفعہ 62، 63 تجویز نہ کی، جن کے متعلق قائداعظمؒ نے شدید ترین سزا اور فولادی پنجے سے نبٹنے کی تلقین کی تھی۔

اس آمر مطلق نے اپنی عمر میاں نواز شریف کو لگ جانے کی دعا تو کر دی۔ یہ دعا نہ کی کہ میاں صاحب اس کی ترمیم شدہ دفعہ 62 کی گرم ہوا سے بھی محفوظ رہیں۔ جس پر عمل کیا جائے تو شاید ہی کوئی بچ پائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے