سعودی عرب کو حج سے کتنی آمدن ہوتی ہے؟

دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان ہر برس حج کرنے سعودی عرب آتے ہیں جس سے سعودی معیشت کو خاصی تقویت ملتی ہے۔
تاہم بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ حج اور عمرہ کرنے کے لیے آنے والے عازمین سے سعودی عرب کو کتنی آمدنی ہوتی ہے اور سعودی عرب کی معیشت میں اس کا کتنا حصہ ہے۔اس کے لیے سب سے پہلے تو حج کے ارادے سے سعودی عرب جانے والے مسلمانوں کی کل تعداد نکالنی ہو گی۔

[pullquote]ہر برس کتنے لوگ مکہ جاتے ہیں؟[/pullquote]

گذشتہ برس مجموعی طور پر 83 لاکھ لوگ حج کے لیے سعودی عرب آئے تھے۔ایک تو یہ کہ سال کے ایک خاص وقت میں ہی حج کیا جاتا ہے اور دوسری بات یہ کہ سعودی عرب نے حج کے لیے آنے والوں کی تعداد کو قابو میں رکھنے کے لیے ہر ملک کا ایک کوٹا طے کر رکھا ہے۔حج کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب میں رہنے والے لوگوں کی بھی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگ مختلف ممالک کے شہری ہوتے ہیں۔

گذشتہ دس سالوں میں سعودی عرب کے اندر سے حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد دوسرے ممالک سے آنے والے حجاج کرام کے مقابلے میں تقریبا نصف رہی ہے۔دنیا بھر میں مسلمانوں کی جتنی آبادی ہے، اس کی محض دو فیصد آبادی ہی سعودی عرب میں رہتی ہے۔مسلمان پورے سال عمرہ کے لیے جاتے رہتے ہیں۔ پچھلے سال 60 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے عمرہ کیا۔

سعودی عرب جانے والے مسلمانوں میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ وہاں عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ سات سال پہلے عمرہ جانے والوں کی تعداد 40 لاکھ تھی اور سعودی عرب کو امید ہے کہ آنے والے چار سالوں میں یہ تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ ہو جائے گی۔ گذشتہ سال سعودی عرب کو حج سے 12 ارب ڈالر کی براہ راست آمدنی ہوئی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 1264 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ سعودی عرب جانے والے حجاج کرام نے وہاں جا کر تقریباً 23 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی۔

[pullquote]حج کے اخراجات [/pullquote]

حج کے لیے سعودی جانے والے مسلمان جو ڈالر وہاں خرچ کرتے ہیں، وہ ان کی معیشت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ تمام رقم سعودی عرب کی براہِ راست آمدنی نہیں ہے لیکن اس سے ان کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملتا ہے۔مکہ چیمبر اور کامرس کے اندازے کے مطابق بیرونی ملک سے آنے والے مسلمانوں کو حج پر4600 ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ سعودی عرب کے حجاج کرام کے حج میں 1500 ڈالر لگتے ہیں۔مختلف ممالک کے لوگوں کے لیے حج کا خرچ مختلف ہوتا ہے۔ ایران سے آنے والے قافلے میں ہر ایک شخص پر یہ خرچ 3000 ڈالر کے قریب پڑتا ہے۔

اس میں سفر، کھانے پینے اور خریداری کا بجٹ شامل ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو بھی تقریباً اتنا ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ایک ایرانی حاجی نے بی بی سی کی فارسی سروس کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس بار حج کا ان کا بجٹ 8000 امریکی ڈالر کا ہے۔اس میں ان کے بہت سے ذاتی اخراجات بھی شامل ہیں لیکن پھر بھی یہ پیسہ کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کی معیشت کا حصہ بن جاتا ہے۔

انڈونیشیا کا کوٹا سب سے زیادہ ہے۔ یہاں سے ہر سال دو لاکھ 20 ہزار لوگ حج کے لیے سعودی عرب جا سکتے ہیں، جو حجاج اکرام کا 14 فیصد ہے۔ اس کے بعد پاکستان 11 فیصد، بھارت 11 فیصد اور بنگلہ دیش کا کوٹا آٹھ فیصد ہے. اس فہرست میں نائیجیریا، ایران، ترکی، مصر جیسے ملک بھی شامل ہیں.

[pullquote]حج سے زیادہ تیل سے پیسہ[/pullquote]

خام تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کے لحاظ سے دیکھیں تو سعودی عرب کو حج سے زیادہ آمدنی نہیں ہوتی لیکن اس کی کوشش ہے کہ تیل کے علاوہ ہونے والی آمدنی کا ذریعہ بڑھایا جائے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا اندازہ ہے کہ تیل کی پیداوار کم کرنے کے اوپیک کے فیصلے سے سعودی عرب کی اقتصادی ترقی اس سال صفر پر چلی جائے گی اور سعودی حکومت اس خسارے کی تلافی دوسرے ذرائع سے کرنا چاہے گی اور اس میں مذہبی سیاحت سے ہونے والی آمدنی سے سب سے زیادہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے