اسلام اور سیاست…دین سے دنیا تک

اسلام ہمارا دین ہے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ کیا اسلام نے سیاسی اعتبار سے بھی انسانوں رہنمائی کی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے حوالے سے مسلمانوں کے مختلف طبقات مختلف آرا پیش کرتے رہتے ہیں۔ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوںکی ایک بڑی تعداد کا گمان ہے کہ مذہب کا تعلق انسان کی نجی زندگی، عبادات اور اخلاقیات سے ہوتا ہے‘ جبکہ وہ سیاست، معیشت، عدالت اور دیگر بہت سے اہم معاملات میں مذہب کی افادیت کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے۔

اس کے برعکس دیندار لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لیکن اس حوالے سے اُٹھائے جانے والے سوالوں کا بوجوہ کئی مرتبہ تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا۔ اس حوالے سے جب ہم کتاب و سنت کا مطالعہ کرتے اور نبیء کریمﷺ کی سیرت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام جہاں پر زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے وہیں پر سیاست کے حوالے سے بھی اس میں ہدایت اور رہنمائی کے تمام لوازمات موجود ہیں۔

جب ہم قرآن مجید پر غور و فکر کرتے ہیں تو اس میں حکمرانوں کے چناؤ سے لے کر ان کی ذمہ داریوں تک بڑی تفصیل سے رہنمائی موجود ہے۔ چنانچہ حکمرانوں کے چناؤ کے حوالے سے بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت کی تقرری کا واقعہ بڑے احسن انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ حضرت شموئیل علیہ السلام کے پاس جب بنی اسرائیل کے لوگ ایک ایسے لیڈر، قائد اور بادشاہ کی تلاش میں پہنچے کہ جس کی زیر قیادت وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں‘ تو انہوں نے اس موقع پر یہ بات کہی کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنایا ہے۔

بنی اسرائیل کے لوگ اس بات کو جانتے تھے کہ طالوت صاحبِ مال انسان نہیں ہیں؛ چنانچہ انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا‘ تو اللہ کے نبی نے ان کے جواب میں یہ بات کہی کہ اللہ نے اس کو تم پر فوقیت دی ہے اور اس کو علم زیادہ دیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکمران کو علم اور طاقت کے اعتبار سے باقی لوگوں کے مقابلے میں ممتاز ہونا چاہیے۔

علم انسان کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے کماحقہ رہنمائی کرتا اور طاقت قوانین کے تنفیذ میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح اقوام کے دفاع کے لیے بھی طاقت غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک کمزور اور ناتواں شخص نہ تو صحیح معنوں میں احکامات کی تنفیذ کر سکتا ہے‘ نہ وہ بحرانی حالات میں اپنی قوم کے کام آ سکتا ہے اور نہ ہی دشمن کی پیش قدمی کو روک سکتا ہے۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ نے حکمرانوں کے چناؤ کے بعد سورہ حج کی آیت نمبر 41 میں حکمرانوں کی ذمہ داریوںکو یوں بیان فرمایا ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں زمین کا اقتدار دیا جائے تو نمازوں کو پابندی سے قائم کرتے، اور زکوٰۃ کو ادا کرتے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں‘‘۔ گویا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں نماز قائم کرنا، غریبوں کی معاونت کے لیے نظام زکوٰۃ قائم کرنا‘ خیر کی نشرواشاعت اور بدی کی روک تھام بھی شامل ہے۔ حکمرانوں کی ذمہ داریوں کے تعین کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں ان انبیا کا ذکر بھی موجود ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اقتدار کی نعمت سے نوازا تھا۔چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام زمین پر حکومت کرتے رہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو سنوارنے اور بیت المال کی تدوین کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا اور خوشحالی کے سالوں میں غلے کی اس انداز میں تنظیم کی کہ جس وقت قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو آپؑ کی تدبیر کی وجہ سے مصر میں جمع شدہ غلہ اہل مصر کے کام آتا رہا اور دنیا بھر سے آنے والے بدحال لوگوں کے دکھ درد کے ازالے کے لیے بھی تدبیر بے مثال رہی۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سلیمان علیہ السلام کی حکومت کا ذکر کیا۔ حضرت سلیمان ؑ کے واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ ؑ نے بھی اپنی حکومت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ اور جب بھی کبھی آپ ؑ کے علم میں یہ بات آئی کہ زمین کے کسی حصے پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک کیا جا رہا ہے‘ آپؑ اس کی بیخ کنی پر آمادہ وتیار رہے۔ چنانچہ سبا کی بستی کی طرف آپ ؑکی پیش قدمی کی بڑی وجہ اہل سباء کا سورج کی پرستش کرنا تھا۔

حضرت سلیمان ؑنے اپنے منصب کو رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے بھی استعمال کیا‘ اور بطور داعی بھی اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان نبیوں کے ساتھ ساتھ سیّدنا ذوالقرنین کی حکومت کا بھی ذکر کیا‘ جنہوں نے زمین میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک اور اللہ کے باغیوں کے ساتھ سختی والا معاملہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپؑ نے زمین پر فساد پھیلانے والوں کے خاتمے کے لیے بھی بہترین تدابیر فرمائیں۔ چنانچہ یاجوج ماجوج جس بستی میں آکر فساد بپا کرتے اور قتل وغارت گری کیا کرتے تھے‘ حضرت ذوالقرنینؑ نے اس بستی کے رہنے والوں اور یاجوج ماجوج کے درمیان ایک فولادی دیوار کھڑی کرکے ان کے فتنے سے اس بستی والوں کو محفوظ کر دیا۔

ان عظیم انبیا اور حکمرانوں کے سیرت وکردار سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ نبی مہرباں حضرت رسول اللہﷺ کی زندگی بھی اس حوالے سے ہمارے لیے بہترین نمونہ رکھتی ہے کہ آپﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت کے ساتھ ساتھ پہلی اسلامی ریاست قائم کی۔ اس اسلامی ریاست میں جہاں بداعتقادی اور غیر اللہ کی پرستش کی بیخ کنی کی وہیں دفاعِ مدینہ کے لیے ایک منظم فوج بھی تشکیل دی اور جب بھی کبھی کسی دشمن نے جارحیت کا مظاہرہ کیا‘ نبیء کریمﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ اسلامی ریاست کے دفاع کے لیے پوری طرح کمربستہ رہے۔ آپﷺ نے اپنی ریاست میں بسنے والے ہر فرد کے مسائل کے حل کے لیے بہترین انداز میں بندوبست فرمایا‘ اور جہاں پر بھی آپ کسی دکھی یا محروم شخص کو دیکھتے ہمہ وقت اس کے کام آنے کے لیے تیار رہتے۔ آپﷺ نے اپنی ریاست میں بسنے والے دیگر مذاہب کے پُرامن پیروکاروں کے لیے بھی حسن سلوک کے اعلیٰ اصول وضع فرمائے اور کسی بھی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی غیر مسلم کے بنیادی حقوق غصب کر سکے۔

گویا کہ شہریت کے اعتبار سے مدینہ میں رہنے والے تمام افراد کو مساوی حقوق حاصل ہوئے۔ نبی کریمﷺ کی قائم کردہ ریاست کے تحفظ اور ترقی کے لیے آپ کے خلفا نے بھی بے مثال کردار ادا کیا۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہما کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے انتہائی سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی۔ خلفائے راشدین ؓ اخلاقی اعتبار سے قابل رشک لوگ تھے اور ان کے یہاں اقربا پروری اور عدم مساوات کا کوئی شائبہ بھی موجود نہیں تھا؛ چنانچہ خلفائے راشدین نے اپنی جانشینی کے لیے اپنے اعزاواقارب میں سے کسی بھی شخص کو منتخب نہیں کیا۔ ان کی سادگی، بے نفسی اور استغنا کو دیکھ کر گاندھی جیسا ہندو رہنما بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔

نبی کریمﷺ کے ان خلفا کے طرز عمل کی وجہ سے اسلامی ریاست نے آدھی دنیا سے زیادہ کو اپنے خلوص کی لپیٹ میں لے لیا۔ خلفائے راشدین کے بعد آنے والی حکومتیں اپنی کمزوریوں کے باوجود دیگر حکومتوں کے مقابلے میں مثالی رہیں۔ لیکن جب مسلمان حکمرانوں نے اغیار کے راستے کو اختیار کرنا شروع کیا اور تہذیبی، ثفاقتی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے دوسروں کی نقالی کرنا شروع کی تو بتدریج زوال اُمت مسلمہ کا مقدر بن گیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد جب سے قومی ریاستیں وجود میں آئی ہیں تاحال حقیقی اسلامی حکومتیں دیکھنے کو نہیں مل رہیں۔ ماضی قریب میں ترکی میں آنے والی تبدیلیاں اس اعتبار سے خوش آئند ہیں کہ ترک حکمرانوں نے عالم اسلام کی قیادت کے لیے اعلیٰ مثالوں کو مسلمانوں کے سامنے رکھا اور ان تمام اہم نکات کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا جن کا تعلق امت مسلمہ کے مفاد کے ساتھ تھا۔

پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے لیکن اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اس پر مسلط ہے اور اہل مذہب کی سیاسیات کے میدان میں حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان کو اصلاحِ فرد، عبادت و ریاضت تک محدود کرنے کے حوالے سے باتیں بڑے زور شور سے کی جاتی ہیں۔ دیندار لوگوں کو سیاست سے دور رکھنے والے پروپیگنڈے کا تعلق قرآن و سنت کی نصوص کے ساتھ نہیں بلکہ حکمران طبقے کی ترجیحات اور خواہشات کے ساتھ ہے۔ دینی جماعتوں کو اس مسئلے میں اشرافیہ اور حکمران طبقے سے مرعوب اور متاثر ہوئے بغیر ان اصول و ضوابط کو اپناتے ہوئے جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے جن اصولوں، واقعات اور حقائق کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے۔ اگر دینی جماعتیں اپنی ترجیحات کا صحیح طور پر تعین کریں اور اللہ کی حاکمیت‘ رسولﷺ کے عطا کردہ نظام اور عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں قرآن و سنت میں موجود تعلیمات کو صحیح طریقے سے اپنے لیے مشعل راہ بنائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاح ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔ لیکن اس کے لیے دینی جماعتوں کو اپنی ذمہ داریوں اور منصب کا ادراک کرکے صحیح سمت جدوجہد کرنا ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے