گلالئی کے الزمات کا آسان حل!

تحریک انصاف کی منحرف خاتون رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پرجو سنگین الزامات لگائے ہیں اس کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ترجمان میڈیا ادارے عمران خان کو ’’فرشتہ اورجنسی درندہ‘‘ عائشہ گلالئی کو’’ پاک دامن‘‘ اور ’’ طوائفہ‘‘ اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی دیگر قیادت کو ’’دلال‘‘ و ’’سازشی‘‘ قراردینے کے لئے ہر حدپار کر رہے ہیں۔

اس وقت ان ترجمان اداروں کے ذریعے کل و جزوقتی ’’بروکرز‘‘ جو زبان و انداز اختیار کئے ہوئے ہیں وہ ہمارے مذہبی ومشرقی معاشرے میں نہ صرف ناقابل قبول بلکہ قابل گرفت بھی ہیں اور کوئی باحیا و باغیرت بیٹا،بھائی اور باپ کم سے کم اپنی ماں ، بہن اور بیٹی کے ساتھ بیٹھکر دیکھ اور نہ ہی سن سکتا ہے۔اس سے بدترین صورتحال بچوں کی ہے۔ قوم کی اصلاح اورمعاشرے کے حقیقی ’’آنکھ۔ کان۔زبان‘‘قرار دئے جانے والے افراد (بالخصوص اینکرز و تجزیہ نگار )جس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ، اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلامی اور مشرقی معاشرے کو تباہ کرنے کی رقم اور قسم کھائی ہوئی ہے۔ ان کو یہاں پر نہ روکاگیا تو پھر ’’اسلامی پاکستان‘‘کتابوں اور داستانوں تک ہی محدود رہے گا۔

پاکستان صرف زمین کے ایک حصے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک اسلامی و نظریاتی ریاست ہے ،جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے قربانی دی ۔ ہر پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ وہ پاکستان کی’’نظریاتی اور جغرافیائی‘‘ سرحدوں کے تحفظ میں کسی مصلحت کا شکار نہ ہو۔ ہر دو امور میں سے کسی ایک سے بھی انحراف میری زاتی رائے میں نظریہ پاکستان اور اکابر کے تصور پاکستان سے بغاوت ہے۔ہمیں ہر معاملے میں پاکستان کی ’’نظریاتی اور جغرافیائی‘‘ سرحدوں کے تحفظ کو مقدم رکھنا ہوگا بصورت دیگر ہمارا عمل پاکستان سے دشمنی اور بغاوت کے مترادف ہوگا۔ دنیا بھر میں میڈیا کا کردارقومی اتحاد، یکجہتی اور شعورکی بیداری میں اہم ہوتاہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ معاملہ بالکل الٹ اور فوقیت صرف انفرادی مفاد اور اس کی بنیاد پر تیار ایجنڈا ہے۔

[pullquote]گلالئی، خان تنازع![/pullquote]

اب ہم بات کرتے ہیں اصل تنازع کی، عمران خان اور عاشئہ گلالئی کوئی عام افراد نہیں کہ اس تنازع کو نظر انداز کیاجائے ، دونوں پاکستان کے سب سے بڑے عوامی فورم قومی اسمبلی کے ممبران اور ایک ملک میں نظام خلافت راشدہ کے نفاذ کی دعویدار جماعت کاسربراہ اورجبکہ دوسرا ممبرہے۔ الزامات صحیح ہیں یا غلط ہر دو صورت ان کی تحقیات اور انجام سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے، اس کے لئے مختلف قانونی ، اخلاقی اور معاشرتی پلیٹ فارم موجود ہیں، جن کے ذریعے اصل بات تک پہنچا جاسکتا تھا اور ہے۔

[pullquote]گلالئی کو کیاکرناچاہئے تھا اور ہے؟[/pullquote]

(1)عائشہ گلالئی اپنی پارٹی میں یہ بات اٹھاتی تو بہتر تھا، جو انہوں نے اٹھائی، وہاں دادرسی نہ ہوتی تو پھردیگراگلا اقدام اٹھاتیں۔

(2)عاشہ گلالئی صاحبہ کو چاہئے تھاکہ پارٹی میں انصاف نہ ملنے پروہ جس فورم’’قومی اسمبلی‘‘کی ممبر ہیں اس میں یہ آواز اٹھاتیں، ایسا نہ کرنا بھی نہ صرف غلط بلکہ الزامات کو مشکوک بناتاہے۔

(3)قومی اسمبلی میں بھی انصاف نہ ملتا تو عاشہ گلالئی صاحبہ کسی قانونی فورم سے روجوع کرلیتیں۔

(4)اگرقانونی فورمز پر انصاف نہ ملتا تو پھر میڈیا کا انتخاب کا کیاجاتا مگر محترمہ نے براہ راست میڈیا کا انتخاب کیا، شاید اس کی وجہ آج کا وہ تاثر ہے کہ میڈیا ہی ہر مسئلے کا فوری حل نکال سکتا ہے( میری نظر میں یہ تصورغلط ہے)۔

(5)عائشہ گلالئی نے اول الذکر تین مراحل کی بجائے آخری مرحلے کا انتخاب کیا،مگر آخری دو فورم میں اب بھی ان کے لئے گنجائش موجود ہے۔

[pullquote]عمران خان صاحب کو کیا کرناچاہئے تھا؟[/pullquote]

(1)خان صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ پراسرار خاموشی اختیار کرنے کی بجائے فوری طور پر قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے ،اس لئے کہ دوسروں سے وہ خود یہی توقع رکھتے ہیں۔

(2) اب خان صاحب قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کریں تاکہ قومی اسمبلی الزامات کے حقائق جان سکے اور جو بھی ملزم ہو اس کو سزا دی مل جائے، اس کے لئے معاملے کو قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے سپردبھی کیا جاسکتاہے یا خصوصی کمیٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔

(3)عمران خان کی جماعت نے جو نوٹس عائشہ گلالئی کو بھیجا ہے ، اس کا تسلی بخش جواب نہ ملنے پر قانونی کارروائی کریں تاکہ کسی کو آئندہ یہ جرات نہ ہوکہ ایک قومی لیڈر پر اس طرح کی الزام تراشی کرسکے۔

(4)عمران خان صاحب کے لئے اس معاملے کو حل کرنا اور الزامات کا جواب دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ ایک قومی لیڈر ہیں اور ان الزامات کا جواب نہ دینے کی صورت میں الزامات کے انتہائی منفی اثرات ان کی سیاست پر پڑھیں گے،ایک منتخب وزیر اعظم کو انہوں نے نااہل کرواکر(فیصلہ کس حد تک میرٹ اور انصاف مبنی ہے اس پر مجھ سمیت لوگوں کے تحفظات اپنی جگہ )جو شہرت اور عزت کمائی ہے اس کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(5)عمران خان صاحب کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ ہونے کی صورت میں اس کو اعتراف جرم تصور کیا جائے گا۔

[pullquote]عدالت عظمیٰ کے کرنے کا کام ؟[/pullquote]

(1)عدالت عظمیٰ کو چائے کہ وہ اس کا از خود نوٹس لے کیونکہ الزامات انتہائی سنگین اور ایک قومی رہنماء پر ہیں۔ عدالت اس کیس کو دیگر کیسز کی طرح نہ دیکھے ،بلکہ پانامہ اسکینڈل میں جس طرح دیگر تمام افراد کو الگ رکھ کر نہ صرف منتخب وزیر اعظم سے آغاز کیاگیا بلکہ ان کو تاحیات نا اہل قراردیتے ہوئے ان کے اہلخانہ کے خلاف عدالت عظمیٰ کے ایک جج کو نگران(نگران مقرر کرنا عین انصاف یا خلاف انصاف یہ الگ بحث ہے ) بناکرنیب کو مقدمات قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

(2)اگرعدالت عظمیٰ اپنی قائم ہوئی مبینہ اعلیٰ مثال پر مزید عمل جاری نہیں رکھتی ہے تو پھر نہ صرف عدالت عظمیٰ کے وقار کو ٹھس پہنچے گی بلکہ یہ تصورمزید پختہ ہوگا کہ عدالت عظمیٰ کا حالیہ پانامہ کیس اور اس کا فیصلہ انصاف کے بول بالا کے لئے نہیں بلکہ کسی کو راستے سے ہٹانے یا کسی کے لئے راستہ صاف کرنے کے لئے تھا اور ان خدشات کو بھی تقویت پہنچائے گا کہ فیصلہ عین انصاف کی بجائے عین انتقام تھا۔

(3)عام تاثر یہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کا اطلاق وزیر اعظم پر ریاستی قوانین کو مد نظر رکھ کے کرنے کی بجائے ایک تشریح کی بنیاد پر کیاگیا ہے، اس کے باوجود فیصلہ کو تسلیم کیا گیا، مذکورہ بالا کیس میں آئین کے مذکورہ آرٹیلز کا اطلاق ہر دو اشخاص میں سے جو بھی مجرم ہے اس پر بغیر کسی تشریح کے ہوتاہے۔

(4)عدالت عظمیٰ کے عمل سے یہ ثابت ہونا چاہئے کہ انصاف سب کے لئے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے