بیچارا انقلاب

انقلاب پریشان ہے۔ معزول وزیر اعظم نواز شریف کے جی ٹی روڈ مارچ نے انقلاب کو پریشان ہی نہیں حیران بھی کر دیا ہے کیونکہ اس مارچ کے دوران نواز شریف کی زبان پر بار بار انقلاب کا ذکر آتا رہا۔ جی ٹی روڈ پر مارچ کے دوران تقاریر میں نواز شریف نے خود کو بڑا نظریاتی انسان قرار دیا اور لاہور پہنچ کر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئین کو بدل ڈالیں گے۔ انقلاب پہلی دفعہ پریشان نہیں ہوا۔ تین سال پہلے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے لاہور سے جی ٹی روڈ پر اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا تو یہ دونوں اصحاب بھی انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ دونوں اپنے اپنے کنٹینروں پر چڑھ کر انقلاب کی باتیں کرنے لگے تو نواز شریف نے ان کے مارچ کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا تھا۔ پھر یہ مارچ دھرنے میں بدل گیا۔ دھرنا کامیاب نہ ہو سکا اور انقلاب کا ذکر ختم ہو گیا۔

تین سال کے بعد نواز شریف نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ پر مارچ شروع کیا تو یارانِ نکتہ داں نے سوال اُٹھایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے مارچ کا مقصد بڑا واضح تھا وہ نواز شریف کی حکومت گرانے اسلام آباد آئے تھے لیکن نواز شریف کے اسلام آباد سے لاہور کی طرف مارچ کا کیا مقصد ہے؟ وفاق میں بھی اُن کی حکومت ہے اور پنجاب میں بھی اُن کی حکومت اُن کا مارچ کس کے خلاف ہے؟ نواز شریف کی تقاریر سے واضح ہو گیا کہ اُن کا مارچ سپریم کورٹ کے خلاف تھا اور لاہور میں اُن کی تقریر سے یہ اشارہ ملا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر آئین میں کچھ تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا تعلق آئین کی دفعہ 62، 63اور 184سے ہو گا تاکہ آئندہ سپریم کورٹ کسی رکن پارلیمنٹ کو بے ایمان یا جھوٹا قرار دے کر نااہل قرار نہ دے سکے۔

نواز شریف نے لاہور کی تقریر میں کہا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کی تجاویز سے متفق ہیں اور اُن کی جماعت ان تجاویز پر عملدرآمد کی حمایت کرے گی۔ نواز شریف بھول گئے کہ چیئرمین سینیٹ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ وہی پیپلز پارٹی جس کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ سے نااہل قرار دلوایا تھا۔ چیئرمین سینیٹ نے کوئی غلط بات نہیں کی لیکن جب اسی چیئرمین سینیٹ نے چند ماہ قبل یہ شکایت کی تھی کہ وزیر اعظم اور اُن کے وزراء ایوان بالا کو نظرانداز کرتے ہیں اور پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے تو نواز شریف کیوں خاموش رہے؟ چیئرمین سینیٹ نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ وہ یہ باتیں پچھلے تین سال سے کر رہے ہیں لیکن نواز شریف نے پہلی دفعہ اُن کی تائید کی ہے کیونکہ اب نواز شریف کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے۔

نواز شریف بھول گئے کہ جس شام اُنہوں نے چیئرمین سینیٹ کی تجاویز کا خیرمقدم کیا اُسی شام پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی چنیوٹ میں ایک جلسے سے خطاب کیا اور نواز شریف کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون کے امکانات کو مسترد کر دیا۔ نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون کی بات اس انداز میں کرتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی پر کوئی احسان کر رہے ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نومبر 2007ء میں پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد یہ اعتراف کر لیا تھا کہ مشرف کے ساتھ این آر او اُن کی غلطی تھی۔ وہ عالمی سطح کی لیڈر تھیں لیکن اُن میں اتنی اخلاقی جرأت تھی کہ اُنہوں نے آخری ملاقات میں مجھ ناچیز کو یہ کہہ دیا کہ این آر او کے متعلق آپ کی رائے درست تھی یہ این آر او محض ایک دھوکہ تھا میری رائے غلط نکلی۔ ایک غلطی کے اعتراف نے میری نظروں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا قد بہت بلند کر دیا لیکن نواز شریف یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میمو گیٹ اسکینڈل میں اُنہوں نے خفیہ اداروں اور سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کو ہٹانے کے لئے جو کردار ادا کیا وہ غلط تھا۔

نواز شریف یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ محض انقلاب کا لفظ اپنی زبان پر لا کر پیپلز پارٹی کو اپنے دام الفت میں پھنسا لیں گے۔ آج کی پیپلز پارٹی انقلاب کی نہیں بلکہ ردِّانقلاب کی علامت ہے۔ اس پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف میں گھسنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف میں پہلے ہی ردِّانقلاب کی بہت سی علامتیں اکٹھی ہو چکی ہیں لہٰذا وہاں نئے آنے والوں کے خلاف ایک بڑی مزاحمت سر اُٹھا رہی ہے۔ اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون پیپلز پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی برباد کر دے گا اس لئے فی الحال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا مل کر انقلاب لانے کا خیال کسی سراب سے کم نہیں۔

انقلاب کا ذکر نواز شریف کریں یا عمران خان، آصف زرداری کریں یا ڈاکٹر طاہر القادری صرف انقلاب کا ذکر کرنے سے کوئی انقلابی نہیں بن جاتا۔ ہر انقلاب کے پیچھے ایک نظریہ ہوتا ہے اور اس نظریے پر عملدرآمد اوپر سے نہیں نیچے سے ہوتا ہے۔ انقلابی نظریہ اوپر والے لے کر نہیں چلتے بلکہ نیچے والے اوپر لے کر جاتے ہیں۔ انقلابی نظریے کی علامت چے گویرا تو بن سکتا ہے لیکن شہنشاہ ایران معزولی کے بعد انقلاب کا نعرہ لگا دے تو اُس کی بات پر کون یقین کرے گا؟ فرانس، روس، چین اور ایران کے انقلابات کی تاریخ اٹھا لیں۔ یہ انقلابات نچلے اور متوسط طبقے نے امیر طبقے کے خلاف برپا کئے۔ انقلابی نظریہ پرولتاری طبقے میں پیدا ہوا سرمایہ داروں میں پیدا نہیں ہوا۔ ذرا غور تو فرمایئے! آج کل کون کون انقلاب کی بات کر رہا ہے؟ چشم تصور سے سوچئے کہ انقلاب کتنا پریشان ہو گا۔ فرانس، روس، چین اور ایران کا انقلاب تاریخ کی کتابوں میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہو گا کہ میرا نام اُن لوگوں کی زبان پر کیوں آنے لگا جو ہمیشہ میرا راستہ روکتے رہے؟ انقلاب یہ سوچ رہا ہو گا کہ آج میں اُن کا محبوب کیسے بن گیا جو ہمیشہ ضد انقلاب تھے؟

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف جی ٹی روڈ مارچ کے ذریعے یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے کہ وہ نااہل ضرور ہوئے لیکن اُن کی سیاست ختم نہیں ہوئی لیکن اُنہوں نے اپنی جماعت کے وجود کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جی ٹی روڈ مارچ میں پنجاب پولیس کھلم کھلا اُن کے جلسوں کے انتظامات کر رہی تھی۔ پاکستان ٹیلی وژن اُن کی عدلیہ مخالف تقاریر بھی نشر کر رہا تھا لیکن سندھ اور خیبر پختونخوا میں پنجاب پولیس نہیں ہو گی۔ پھر وہ کیا کریں گے؟ نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری کی زبان سے انقلاب کا لفظ اچھا نہیں لگتا کیونکہ تینوں میں سے کسی کا کردار انقلابی نہیں ہے۔ انقلاب آئین میں تبدیلی سے نہیں پورے سیاسی نظام کی تبدیلی سے آتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی بقاء وفاقی پارلیمانی جمہوریت سے مشروط ہے۔ فی الحال اس نظام کو چلنے دیں اور قوم کو انقلاب کا فریب نہ دیں کہیں انقلاب مزید پریشان ہو کر قوم کے دماغ میں نہ گھس جائے پھر کسی کی خیر نہ ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے