گاڈ فادر سے فادر لی امیج تک

اِن دنوں ایک بہت دلچسپ بات سننے میں آ رہی ہے، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف فوج اور عدلیہ سے مل کر گزشتہ تین حکومتوں کو چلتا کرنے میں ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ اب اگر سپریم کورٹ جیسے مقدس ادارے نے انہیں نا اہل قرار دے کر ان کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے تو وہ اس کا الزام سپریم کورٹ اور فوج پر کیوں لگا رہے ہیں۔ یہ دوست یہ دلیل دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ وہ اس دلیل کے ذریعے خود الزام لگا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کوئی پاک صاف ادارہ نہیں اور یہ بھی کہ ہماری فوج اور عدلیہ مل کر جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ انہیں اعتراض صرف یہ ہے کہ اگر اس بار یہ کام خود نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے تو وہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر کیوں نکل آئے۔ انہیں وزیراعظم ہائوس سے سیدھا اپنے گھر جاتی عمرہ جانا چاہئے تھا اور باقی عمر یاد اللہ میں بسر کرنا چاہئے تھی۔

اس ضمن میں میری گزارش یہ ہے کہ ہماری عدلیہ پر شروع دن سے سوالیہ نشانات نظر آتے ہیں اور ان میں سے کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ اقرار بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے کچھ بہت اہم فیصلے کسی کے دبائو میں آ کر کئے تھے۔ اسی طرح فوج میں سے جنرل اسلم بیگ اور کچھ دوسرے جرنیل بھی اپنی مداخلت کا اقرار کر چکے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان ساری عمر نابالغ نہیں رہتا، ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب وہ سنِ بلوغت کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کی دو واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسری محمد نواز شریف کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پرورش جنرل ایوب خاں اور محمد نواز شریف کی پرورش جنرل ضیاء الحق کی گود میں ہوئی۔ مگر پھر جب وہ سنِ بلوغت کو پہنچے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا اور وہ کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں نہ لائے، ذوالفقار علی بھٹو کو اس کا خمیازہ پھانسی اور نواز شریف کو جلا وطنی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ نواز شریف پہ الزام جہاز ہائی جیک کرنے کا تھا جس کی سزا موت ہے۔ چنانچہ فاضل جج رحمت علی جعفری پر ہر قسم کا دبائو ڈالا گیا کہ نواز کو پھانسی کے تختے تک پہنچایا جائے مگر خدا مغفرت کرے اس شخص کی کہ اس نے صرف عمر قید سزا کی ۔ جن کو علم نہ ہو، ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پھانسی کے عمد کو جب عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس کے لواحقین مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ میاں صاحب کال کوٹھڑی میں رہے اور بدترین قید تنہائی بھی برداشت کی۔ ان کا سارا خاندان قید کر لیا گیا اور پھر وہ جلا وطن کر دیئے گئے جنہیں وہ اپنی زندگی کے بدترین دن قرار دیتے ہیں۔

یہ تھوڑی سی تفصیل میں نے اس لئے بیان کی کہ عوام کا پُر جوش اور والہانہ استقبال دراصل ایک بالغ رہنما کے لئے تھا۔ جس نے 1997ء اور پھر 2013ء میں اپنی عوامی خدمت اور بہترین کارکردگی سے عوام کے دل جیتے۔ وہ جب سے سیاست میں آئے ہیں ان کا کئی مرتبہ احتساب ہوا۔ اس بار تو ان سے گزشتہ ستر سال کا حساب مانگا گیا۔ ایک ایک کاغذ کو خورد بین سے دیکھا گیا کہ کہیں کرپشن کی کوئی غلاظت نظر آئے مگر ان کا دامن صاف تھا اور اس یقین کے ساتھ وقت کا وزیراعظم اور ان کا سارا خاندان عدالتوں کی پیشیاں بھگتتے رہے۔ مگر جو کرپشن دریافت کی گئی وہ ڈھائی لاکھ روپے تنخواہ تھی جو دبئی میں ان کے بیٹے کی کمپنی کی طرف سے ان کے لئے مقرر کی گئی تھی اور انہوں نے چونکہ وہ وصول نہیں کی چنانچہ انکم ٹیکس گوشواروں میں اس کا ذکر نہ کیا۔ سو ڈھائی لاکھ روپے وصول نہ کرنے کی ’’کرپشن‘‘ پر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے انہیں وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل قرار دے دیا۔ واضح رہے ان پانچ ججوں میں سے چار نے مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر ان کے سر پر پاکستان کی حاکمیت کا تاج پہننے کی آئینی اجازت دی تھی۔
2013ء سے آج 2017ءتک آج کے نابالغ سیاست دان عمران خان کو ڈیپیوٹ کیا گیا کہ تم نے نواز شریف کو کام نہیں کرنے دیا کیونکہ اس نے جو میگا ترقیاتی پروجیکٹ شروع کر رکھے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے جن منصوبوں پر عمل جاری ہے اوپر سے سی پیک بھی ایک گیم چینجر پروجیکٹ ہے۔ اگر یہ سب کام ہو گئے تو اگلے پانچ سال بھی نواز شریف ہی کے ہیں اور ہمارا یہ نابالغ سیاست دان صرف ہوس اقتدار میں انگلی کے اشارے کا منتظر رہا۔

انگلی تو نہ اٹھی کہ حکومت کے صبر و تحمل کے نتیجے میں جو اس نے پارلیمنٹ، پی ٹی وی اور دوسرے اداروں پر حملوں کے دوران اپنائی، دس بیس لاشوں کا خام مال میسر نہ آ سکا۔ جو انگلی اٹھائے جانے کا جواز بنایا جاتا ایسے مواقع پہ لاہور ہائیکورٹ کے لفظوں میں ’’ایک جھوٹے مکار اور بے ایمان شخص‘‘ طاہر القادری کی خدمات وصول کی جاتی ہیں، جو کینیڈا سے اپنی ضروری مصروفیات سے صرف نظر کر کے پاکستان تشریف لاتے ہیں اور فساد فی الارض کر کے اپنے وطن کینیڈا روانہ ہو جاتے ہیں۔ سو وہ ان دنوں پھر لاہور میں ہیں۔

اور آخر میں چند گزارشات مجھے محترم نواز شریف صاحب سے بھی کرنا ہیں۔ عوام کے جم غفیر نے جس والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا ہے وہ اس کے مدنظر کبھی ریڈ لائن کراس نہ کریں، سیاسی جماعتوں سے ربط ضبط بڑھائیں، رضا ربانی کی تجویز پر عمل پیرا ہونے کی سبیل پیدا کریں۔ جلسے کم کریں، مسلم لیگ کے مختلف اضلاعی نمائندوں سے رابطہ رکھیں۔ صحافیوں کو اپنے ہاں مدعو کریں۔ جلسوں میں ایک ہی سوال بار بار نہ پوچھیں اس تکرار سے پبلک کے جوش میں کمی آ جاتی ہے۔ فوج کی ہائی کمان کے بارے میں میری رائے سے ممکن ہے بہت سے لوگ اختلاف کریں مگر میں ابھی تک حسن ظن میں مبتلا ہوں۔ عدلیہ اور نیب کی کریڈیبلٹی مشکوک ہو چکی ہے۔ وزیراعظم ’’گاڈ فادر‘‘ کہا گیا۔ میاں صاحب آپ اس کا کہا بھول جائیں پاکستانی عوام کو آپ کی صورت میں اگر ’’فادر لی امیج‘‘ نظر آتا ہے تو انہیں آئندہ بھی مایوس نہ کریں۔ آپ کی جگہ لینے والا انہیں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے