سویلین بالادستی

سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے ریمارکس نے مجھ ناچیز کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ استغاثہ کا نظام بہتر بنانے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کئے گئے لیکن اس میں کوئی بہتری پیدا نہ ہو سکی آج بھی دو وزرائے اعظم کے قتل کے مقدمات معمہ بنے ہوئے ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان کا اشارہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی طرف تھا۔ جج صاحب کے ریمارکس پڑھ کر اُن تمام سیاستدانوں کے چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے جو آج کل سویلین بالادستی قائم کرنے کے لئے آئین میں مزید ترامیم کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل کر کے سویلین بالادستی کی ایک سنہری مثال قائم کر سکتے تھے لیکن ان دونوں جماعتوں نے حصول اقتدار سے پہلے اور بعد میں ایسی ایسی سودے بازیاں کیں جن سے پردہ اٹھاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے کیونکہ میں بھی ایک سویلین ہوں اور سویلین بالادستی کا بہت بڑا حامی ہوں۔ لیاقت علی خان کی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میں قتل کیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ایک ای میل کے ذریعہ اپنے امریکی لابسٹ مارک سیگل کو مطلع کر دیا تھا کہ اگر اُنہیں قتل کیا گیا تو ذمہ دار جنرل پرویز مشرف ہوں گے۔ 27دسمبر 2007ء کو اُنہیں قتل کیا گیا تو سی این این پر وولٹ بلٹنرز نے فوراً یہ ای میل دکھا دی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی۔ ایف آئی اے اور پنجاب پولیس چاہتیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل ہو سکتا تھا لیکن دونوں نے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی کیونکہ مرکز اور پنجاب کی سویلین حکومتیں ایک سابق ڈکٹیٹر کی بے توقیری کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ تھیں۔ پیپلز پارٹی اس معاملے کو اقوام متحدہ تک لے گئی لیکن افسوس کہ جب دبائو آیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے دبائو ڈالنے والوں کے ساتھ سودا کرنے کی کوشش کی لیکن اسکے باوجود پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہو گئے۔ بظاہر اُن پر توہین عدالت کا الزام تھا لیکن اس سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم ہونے کے باوجود یہ سوال اٹھایا کہ اُسامہ بن لادن کو پاکستان کا ویزا کس نے دیا، وہ ویزے کے ساتھ آیا یا ویزے کے بغیر آیا؟ وزیر اعظم سوال نہیں کیا کرتے وزیر اعظم سوالات کے جواب دیا کرتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا سوال اُن کی سیاسی بے اختیاری کی مثال بن گیا اور وہ وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل نہ ہوا۔ مارچ 2013ء میں بے نظیر قتل کیس کے مرکزی ملزم پرویز مشرف پاکستان واپس آ گئے اور چند دنوں کے بعد بے نظیر قتل کیس میں سرکاری پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا۔ 2013ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے ووٹروں کی بڑی تعداد نے صرف اس لئے بھٹو کی پارٹی کو ووٹ نہ دیا کیونکہ آصف علی زرداری اور رحمان ملک بھٹو کی بیٹی کے قتل کا معمہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ 2013ء میں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ اب تاریخ نے اُنہیں سویلین بالادستی قائم کرنے کا موقع دیا۔ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ تو قائم کر لیا لیکن اسے انجام تک نہ پہنچا سکے۔ آج کل نواز شریف صاحب کے ایک خیر خواہ مجھے بار بار کہتے ہیں کہ سویلین بالادستی کے لئے نواز شریف کی حمایت کریں۔ میں نے اس خیر خواہ کو یاد دلایا کہ یہ آپ ہی تھے جو کہا کرتے تھے کہ اگر مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلائے بغیر پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے تو پاکستان میں سویلین بالادستی قائم ہو جائے گی۔ یہ بھی نہ سوچا گیا کہ مشرف پر صرف آئین کے قتل کا نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ بھی قائم تھا۔ نواز شریف حکومت نے مشرف کو پاکستان سے نکالنے کے لئے سویلین بالادستی کے تصور کو وزیراعظم ہائوس کی ایک دراز میں بند کر دیا۔ فواد حسن فواد نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو جو ہدایات دیں اُن پر عملدرآمد ہوا۔ یہ ہدایات کہاں سے آئی تھیں؟ بہتر ہے اس راز سے میں پردہ نہ اٹھائوں۔ نواز شریف صاحب خود ہی پردہ اُٹھا دیں تو بہتر ہو گا تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ فواد صاحب نے کہاں سے ہدایات لی تھیں۔

گزارش صرف اتنی ہے کہ صرف دو سابق وزرائے اعظم کا قتل معمہ نہیں ایک سابق فوجی صدر اور ایک نامزد آرمی چیف کی موت بھی آج تک معمہ ہے۔ 17اگست 1988ء کو بہاولپور کے نزدیک جنرل ضیاء الحق کی طیارے کے حادثے میں موت آج تک ایک راز ہے۔ اس سے پہلے 1949ء میں پاکستانی فوج کے پہلے مقامی نامزد سربراہ میجر جنرل افتخار خان کراچی کے قریب جنگ شاہی کے علاقے میں ہوائی حادثے کا شکار ہوئے۔ وہ جنرل اکبر خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ جنرل اکبر خان کو 13دسمبر 1949ء کو حادثے کی اطلاع ملی تو وہ رات کے اندھیرے میں خود جائے حادثہ پر پہنچے اور اپنے بھائی، بھاوج، بھتیجے اور بریگیڈیئر شیر خان کی لاشیں شناخت کیں۔ اس ہوائی جہاز پر الجزائر کی تحریک آزادی کا ایک لیڈر بھی سوار تھا جس کے زندہ یا مردہ گرفتار ہونے پر بڑی انعامی رقم مقرر تھی۔ یہ ہوائی جہاز اوریئنٹ ایئر لائنز کی ملکیت تھا جس کے ڈائریکٹر یوسف ہارون تھے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس حادثے کی تحقیقات کو دبا دیا اور میجر جنرل افتخار خان کی جگہ ایوب خان کو آرمی چیف بنا دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان راولپنڈی میں ایک افغان باشندے سید اکبر کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ یہ افغان باشندہ حکومت پاکستان سے ساڑھے چار سو روپے ماہوار وظیفہ لیتا تھا اور اسے افغانستان سے نکالا جا چکا تھا۔ لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے تو وہ اپنے ساتھی اور دوست کے قتل کا معمہ حل کرنے میں ناکام رہے۔

عجیب اتفاق تھا کہ لیاقت علی خان قتل کیس کے انکوائری افسر ڈی آئی جی نوابزادہ اعتزاز الدین راولپنڈی سے لاہور آتے ہوئے ایک ہوائی حادثے کا شکار ہو گئے۔ یکم مارچ 1958ء کو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے لاہور ہائیکورٹ کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کی فائل غائب ہو چکی ہے۔ ایک وزیر اعظم کے قتل کی فائل غائب ہو گئی لیکن پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے قتل کی فائل تو غائب نہیں ہوئی۔ کیا سویلین بالادستی کے علمبردار اس معمے کو حل کرنے کی جرأت کریں گے؟ پیپلز پارٹی تو کچھ نہ کر سکی لیکن مسلم لیگ (ن) بہت کچھ کر سکتی ہے۔ مرکز میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ مسلم لیگ (ن) چاہے تو صرف چند ماہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل کر سکتی ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے سندھ کے گلی کوچوں میں نکلنا بھی دشوار ہو جائے گا۔ سویلین بالادستی کا مطلب یہ تو نہیں کہ سپریم کورٹ کے پانچ سویلین جج آپ کو نااہل قرار دیں تو آپ سازش کا شور مچانے لگیں اور پھر انہی ججوں کے سامنے نظرثانی کی اپیل دائر کر کے اپنا مذاق بنا لیں۔ سویلین بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کر کے دکھائیں جس سے براہ راست فائدہ آپ کی ذات کو نہیں بلکہ واقعی آئین و قانون کو ہو۔ آپ بے نظیر قتل کیس کا معمہ حل کر دیں ہم آپ کو سلام پیش کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے