17اگست اورہمارےجمہوریت پسندمفکرین

سترہ اگست کا جمہوریت سے گہرا تعلق ہے، یہ دن ہمارے جمہوریت پسند دانشمندوں کو جگانے کا دن ہے۔ کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔

اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔

جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔

یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔

کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔

کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔

جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔

صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔

ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔

چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔

جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں بھی ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔

پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔

اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔

علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے۔

اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اورمخصوص دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان اور جمہوریت کی شہ رگ کوآج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی کے سائے میں ١١سالوں کے اندروہ کام کرگیاجواٹلی کے میکاویلی نے١٥سالوں میں کیا تھا۔

چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف” فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔

حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِے سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی” سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:

سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]

اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوںکی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:

"سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے”۔
موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]

اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔

اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا،

کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،

اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا تھا۔

یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے تھا جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔

اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی ” عملی سیاست” میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔

جس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔

آج سترہ اگست ہے اور آج کے دن ہمارے دانشمندوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے آج تک ضیاالحق کو کتنا سمجھا ہے اور اس کے اثرات سے اپنے معاشرے اور جمہوریت کو کتنے فیصد پاک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

یہ ہمارے جمہوریت پسند دانشمندوں سے بحیثیت قوم بھول ہوئی ہے کہ ہم نے ضیاالحق کی باقیات اور نظریات کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ ہم نے سترہ اگست کو یہ فرض کر لیا ہے کہ اس دن جنرل ضیاالحق کی وفات ہو گئی ہے جبکہ ہم یہ بھول گئے کہ حکمرانوں کے اثرات اور نظریات و افکار تا دیر باقی رہتے ہیں۔

حوالہ جات:

جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل

ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد

· جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد

· اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد

· بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے