جب جنید جمشید بھاگا تھا

_

جنید جمشید ایک گلوکار تھا مولانا طارق جمیل کی بدولت اللہ تعالی نے اسے تبلیغ کی طرف مائل کیا_ وہ گانے بجانے کو چھوڑ کر رسول اللہ کی مدح ثنائی کرنے لگ گیا_ تبلیغی جماعت کے رواج کے مطابق وہ بیان بھی کرتا_ کبھی کبھار غلطی بھی کر دیتا_ جب غلطی کا علم ہوتا وہ معافی مانگ لیتا_ ایک بار اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے متعلق کوئی بات کی تو اسے سمجھایا گیا یہ ٹھیک نہیں تو اس نے روتے ہوئے معافی مانگی_ اپنی غلطی پر پیشمان ہوا اور رو کر اظہار ندامت کیا_

مگر ہم کہاں معاف کرنے والے ? خدا معاف بھی کر دے تو بندے کب معاف کرتے ہیں ? خدا کے سامنے بہائے گئے قیمتی آنسو ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے_ منبروں سے آگ و شعلے نکلے_ جنید جمشید کو کنجر اور گستاخ رسول کہا گیا_ اس کا رونا ڈرامہ قرار دیکر ریجکٹ کیا گیا _

پھر زمانے نے دیکھا کہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر جنید جمشید چند عاشقان رسول کے ہاتھ چڑھ گیا_ وہ جنید کو گستاخ کہہ رہے تھے اور جنید عاشق رسول ہونے کا اقرار کر رہا تھا_ تعصب اور عقیدت کی پٹی جب آنکھوں پر پڑی ہو تو پھر کلمہ بھی نہیں بچا سکتا_ چند لوگ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے جنید پر پل پڑے_

میں تو امتی ہوں اے شاہ امم پڑھنے والا جنید جان بچانے کے لیے بھاگ پڑا_ یہ منظر آج تک نہیں بھولا _ مجھے ایسا لگا کہ وار جنید پر نہیں ان گلوکاروں پر کیا گیا جو ابھی تک مذہب سے دور ہیں_

جنید تو یہ وار سہہ گیا اس نے رحمت دو عالم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ گھٹیا حرکت کرنے والوں کو معاف کر دیا مگر آقا کے نام لیوا چند مسلکی ملاں اسے کنجر اور گستاخ رسول کہتے رہے_
اسکی موت پر خوشیاں منائی گئیں_ جملے کسے گئے اور شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے_

جنید سوچتا تو ضرور ہو گا کہ آخر اس سے کیا غلطی ہوئی ? وہ سوچتا ہو گا جب میں گاتا تھا تو میرے ارد گرد حسینائیں تھیں_ دولت کی ریل پیل تھی اور میں سب کا ہیرو تھا سب مجھے دل دل جاں جاں پاکستان سے جانتے تھے_ جونہی میں نے پگڑی باندھی, داڑھی رکھی ,رسول اللہ کی مدح ثنائی کی تو واجب القتل بھی ٹھہر گیا اور گستاخ بھی_ آخر حلیہ رسول اپنانا ہی جرم ٹھہرا_

کاش یہ سلسلہ رک جاتا تو بات بن جاتی مگر یہ سلسلہ رکا نہیں_ بات بڑھی اور بڑھتی چلتی گئی_

ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد بریلوی مسلک کے چند جذباتی مولوی ممتاز قادری کی لاش کو لیکر چل پڑے ہیں_ جو جو ان سے اختلاف کرتا ہے اسے بھی گالیوں سے نوازتے ہیں_ طاہر القادری صاحب جیسے لوگ کہتے رہے یہ آگ ہے اس سے نہ کھیلو مگر انہیں مغرب کا پروردہ ثابت کرنے کی کوشش شروع ہو گئی_ انہیں شیخ الشیطان اور نجانے کیا کیا القابات مل رہے ہیں_

وہ کہتے رہے کہ ممتاز قادری نے جرم کیا ہے وہ قاتل ہے مگر انکی سنی ہی نہیں گئی_ اب اس فکر کا نتیجہ نکل رہا ہے_ اب خادم حسین رضوی کے ماننے والے قتل کرنے لگ گئے ہیں_ جس طرح خادم رضوی قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اسی طرح اب انکے ماننے والے خود ہی فتوے صادر کر کے قتل کرنے لگ گئے ہیں_

جب کسی کو گستاخ بھی چند ملاوں نے ہی قرار دینا ہے تو پھر خون تو بہے گا_ ممتاز قادری کے تعزیتی جلسے میں ایک صاحب نے طنزیہ کہا تھا کہ وہ دوسرے بھی جنازے میں آئے ہوئے تھے اگلا نمبر اب ان کا ہے_

جنید جمشید کے بعد اگلا نمبر تبلیغی جماعت کا آ گیا ہے چینیوٹ میں تین نام نہاد عاشقوں نے دو تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ انہوں نے رسول اللہ کی گستاخی کی ہے_ قاتل خادم رضوی سے متاثر ہیں اور ان کے چاہنے والے ہیں_

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک اس واقعے کے خلاف کہیں سے بھی آواز نہیں اٹھی_ بریلوی علماء خاموش ہیں اور رسالت میڈیا کے نام سے بنا پیج و دیگر کچھ لوگ ان لوگوں کو ہیرو بنا رہے ہیں اور قاتلوں کو غازی کے القابات سے نواز رہے ہیں_

افسوس ہے افسوس کہ اولیاء کے ماننے والے کس راستے پر چل پڑے ہیں_

مکرر ہے کہ بریلوی لوگوں کی یہ پہچان بہت اچھی ہے کہ یہ اولیاء کے نمائندے ہیں_ یہ داتا کی نگری کے ماننے والے ہیں_ یہ بابا بھلے شاہ کے وارث ہیں ،یہ سچل سرمست کے والی ہیں ، یہ پرامن لوگ ہیں_

معلوم نہیں کیوں کچھ لوگوں کو ان القابات سے چڑ ہونے لگی ہے? اگر یہ طبقہ بھی بدنام ہو گیا تو دین بدنام ہو گا_ رسول اللہ کے منبر کو خادم رضوی جیسے لوگوں سے چھڑانا ہو گا_ دین پہلے ہی اجنبی ہے اسکی اجنبیت میں اضافہ نہ کیا جائے_ میں دو لاشیں اٹھانے کے بعد بھی اپنے نبی کے دین کے لیے بھیک مانگ رہا ہوں_

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے