خادمِ اعلی پنجاب کے نام ایک طالب علم کا کُھلا خط

محترم خادم اعلی شہباز شریف صاحب، مشکٰوۃ مبشر اس سال فیڈرل بورڈ کے ٹاپرز میں شامل تھی ۔ اس سے پہلے مشکٰوۃ نے میٹرک میں بھی ٹاپ کیا تھا۔ وہ ڈاکٹر بننے کے ارمان لے کر خوشی خوشی میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں دن رات محنت کی مشکٰوۃ نے بیس اگست کو منعقد ہونے MDCAT کے ٹیسٹ میں شرکت کی اور فیڈرل بورڈ کی ٹاپر ہونے کے باوجود انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہوسکی ۔مشکٰوۃ 1100 نمبرز میں سے صرف 857 نمبر ہی لے سکی ۔

یو ایچ ایس کے زیرِ اہتمام ہونے والے اس ٹیسٹ کے بارے میں پچھلے کچھ سالوں سے لوگوں کو تحفظات رہے ہیں۔ اس سال بھی ان تحفظات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ والدین اور اسٹوڈنٹس یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس ٹیسٹ کا مقصد واقعی میرٹ ہے یا میرٹ کا قتل ؟

اس سال اس ٹیسٹ کو تیار کرنے والوں کی نیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بات ہی کافی ہے کہ کیلکیولیٹر کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ ہونے کے باوجود فزکس کے نوے فیصد سوالات کیلکیولیشنز اور ڈائیگرامز پر مبنی تھے ۔ دئیے گئے وقت کے مطابق ہر سوال کے لئے صرف چالیس سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے ۔ اس امر کے پیشِ نظر اس طرح کے ٹیسٹ پیٹرن بنانے کی وجہ پہ کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ طالب علموں نے شکایت کی ہے کہ فزکس ٹیسٹ سلیبس اور پیٹرن بناتے وقت مقررہ وقت کو قطعی مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ اور جس طرح کے سوالات بنائے گئے ان کا چالیس سیکنڈ میں حل ہونا ممکن نہیں تھا اور صرف اسی پر ہی بس نہیں کیا گیا انگلش کے ٹیسٹ میں پوچھے گئے سوالات انٹر میڈیٹ کے سلیبس کے مطابق ہی نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو اس سیکشن میں بھی انتہائی مشکل پیش آئی ۔

یہ تو تھیں وہ تیکنیکی خامیاں جس کی زمہ داری ٹیسٹ تیار کرنےوالوں پر عائد ہوتی ہے ۔

لیکن اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ میرٹ کے نام پہ لئے جانے والے اس ٹیسٹ سے پہلے ہی کچھ بچوں کے کے پاس فزکس کا حل شدہ پیپر کا موجود ہونا تھا۔ اور ان تمام بچوں کا تعلق ایک مشہور پرائیوٹ اکیڈمی سے تھا۔

اس ٹیسٹ میں ہونے والی بد عنوانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیس اگست کو ہونے والے اس ٹیسٹ کا حل شدہ فزکس کا پیپر دن کے تقریبا دو بجے فیس بک پہ پوسٹ کیا گیا جس پر اس پرائیوٹ اکیڈمی کے ٹیچر کا نام بھی درج تھا۔
جب انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے والے طلباء سے ٹیسٹ پیپر واپس لے لیا جاتا ہےاور ایسی کوئی صورت بھی نہیں کہ اسٹوڈنٹس وہ پیپر باہر لا سکیں تو آخر کس طرح فزکس کا انہی سوالوں کا حل شدہ پیپر فیس بک پر اپ لوڈ ہوا ؟
اس پیپر میں موجود سوالات، ڈائیگرامز اور آپشنز سو فیصد وہی تھیں جو ٹیسٹ میں پوچھے گئے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہ پیپر حل شدہ تھا۔
اس سلسلے میں کوئی بھی شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ ایک اسٹوڈنٹ جس کے پاس موبائل اور پین تک نہیں ہوتا اور جس کو کسی صورت کوئی پیپر باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی وہ یہ پیپر آؤٹ کراسکے۔

یہی وجہ تھی کہ جس اکیڈمی کے ٹیچر کا نام اس حل شدہ پیپرز پہ درج تھا وہاں سے تعلق رکھنے والے تمام اسٹوڈنٹس انتہائی مطمئین تھے نہ وہ کیلکیولیشنز سے پریشان تھے نہ سوالوں اور ڈائیگرامز سے کیونکہ انہیں پہلے ہی سے پرچہ حل کرکے تیاری کرادی گئی تھی ۔

اگر یہی وہ میرٹ ہے جس کے لئے بچے بارہ سال محنت کرتے ہیں تو اسکو میرٹ کے بجائے میرٹ کا قتل ہی کہنا چاہئے۔ وہ بچے جو ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ بارہ سال سخت محنت کرتے ہیں حتی کے اپنے بورڈ کے ٹاپرز میں شمار ہوتے ہیں لیکن آخر میں انہیں اور ان کے خوابوں کو اس “میرٹ ” کے ہاتھوں ہی توڑ دیا جاتا ہے۔اس میرٹ پہ سوالیہ نشان یوں بھی ہے کہ ایف ایس سی میں حاصل ہونے والے مارکس کو محض چالیس فیصد اور انٹری ٹیسٹ کے رزلٹ کو پچاس فیصد اہمیت حاصل ہے۔

اور یہ ظلم صرف مشکٰوۃ مبشر کے ساتھ نہیں ہوا اس کے ساتھ شریک بورڈ کے دوسرے ٹاپرز بھی ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔ سرگودھا بورڈ کی ہی دو ہزار پندرہ کی ٹاپر عائشہ نوفل کے خواب بھی اس نام نہاد میرٹ سسٹم کے ہاتھوں ٹوٹ گئے تھے ۔ عائشہ نوفل کی چھوٹی بہن نے بھی دوہزار سولا میں سرگودھا بورڈ سے ٹاپ کیا اور وہ بھی اسی سسٹم کے ہاتھوں اپنے بارہ سال کی محنت گنوا بیٹھی۔

خادم اعلی صاحب آج آپ سےمشکٰوۃ مبشر اور اس جیسے کئی ہونہار طلباء کا فوری مطالبہ ہے کہ بیس اگست کو ہونے والے اس ٹیسٹ کو فی الفور کینسل کرکے دوبارہ سے انٹری ٹیسٹ کا اہتمام کیا جائے ۔

یو ایچ ایس اور جس پرائیوٹ اکیڈمی نے یہ پیپر بنایا اور کے عملے کے وہ کرپٹ ارکان جو اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ یو ایچ ایس کے عملے کی مدد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

اس وقت پنجاب کے ہونہار بچوں اور ان کے والدین اس ظلم پر نہ صرف رنجیدہ ہیں بلکہ سراپا احتجاج بھی ہیں۔ اس نام نہاد میرٹ سسٹم کے تلے دب کر کئی زہین بچے اپنی زندگی سے ہی مایوس ہوچکے ہیں اور خودکشی کی نوبت پر پہنچ چکے ہیں۔
خادم اعلی صاحب آپ سے درخواست ہے کہ ان بچوں اور ان کے والدین کی فوری داد رسی کا اہتمام کیا جائے۔ اس واقعے کی مکمل انکوائری اور فرانزک آڈٹ کرایا جائے تاکہ زمہ داروں کو سزا دی جاسکے ۔

خادم اعلی صاحب مشکٰوۃ مبشر ، عائشہ نوفل۔ اور اس جیسے کئی طالبعلموں اور ان کے والدین کی نظریں آج آپ پر لگی ہیں امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں فوری کاروائی کریں گے اور جلد ہی دوسرے ٹیسٹ کا انعقاد ممکن بنائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے