خوبصورت بکرا اور عبدالشکور ٹامی

آج صبح ابھی آدھا ہی جاگا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف عبدالشکور ٹامی تھے جو ایک این جی او چلاتے ہیں۔ بہت غصے میں نظر آئے تھے سلام دعا کے بغیر بولے ’’مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی‘‘ مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے مجھ سے کیسی امیدیں باندھی ہوئی تھیں، جو پوری نہ ہونے کی وجہ سے وہ اتنے غصے میں نظر آ رہے ہیں۔ میں نے کہا ’’برادر خیر تو ہے، مجھ سے کون سی ایسی خطا سرزد ہو گئی ہے جو آپ اتنے ناراض نظر آ رہے ہیں؟‘‘ بولے ’’اب اتنے بھولے بھی نہ بنو، آج بکرے پر کالم تم ہی نے لکھا ہے نا ’’ظاہر ہے بکرے والا کالم میں نے ہی لکھا تھا اور مکرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ انہیں اس میں کیا خرابی نظر آئی۔ پھر یاد آیا کہ موصوف بہت سے انسانوں اور جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک این جی او چلاتے ہیں ان کا تو یہ عالم ہے کہ اگر ان کے کتے کو کوئی کتا کہے تو ناراض ہو جاتے ہیں کہ تم نے اسے کتا اس لئے کہا ہے کہ تم اسے کتے کی گالی دینا چاہتے تھے بہرحال جب ان سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ انہیں میرے کالم میں جو بات بری لگی ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں نے سراج دین آڑھتی سے یہ بات منسوب کیوں کی ہے کہ آپ کے ٹی وی پروگرام ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ میں مختلف این جی اوز کے آڑھتی اگر آ سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں آ سکتا، دوسری بات انہیں یہ بری لگی تھی کہ بکرے میں اگر آپ کو کچھ زنانہ خصوصیات نظر آئیں تو آپ نے اس کا مذاق کیوں اڑایا؟

میں نے یہ اعتراضات سنے تو عرض کی کہ برادر آپ میرے پروگرام میں تشریف لائے تھے۔ آپ ایک این جی او ہی چلاتے ہیں۔ یہ تو مجھے پتا ہے کہ اکثر این جی او والے آڑھت کا کام کرتے ہیں، معراج دین آڑھتی نے اگر یہ بات کہی تو اس کا اشارہ آپ کی طرف تو بہرحال نہیں تھا۔ وہ تو صرف اپنا ’’لچ‘‘ تلنا چاہ رہا تھا۔ اس پہ موصوف نے فرمایا کہ انہیں سراج دین سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ آپ کو تو اسے وضاحت کرنا چاہئے تھی کہ بھائی کچھ این جی او والے آڑھتی ہوں گے مگر عبدالشکور ٹامی ان میں سے نہیں ہے۔ میں دل ہی دل میں ہنسا اور میں نے کہا آپ گلے میں حق بجانب ہیں۔ میں اپنےکالم میں اس کی وضاحت کر دوں گا۔ چنانچہ قارئین کرام آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عبدالشکور ٹامی این جی او چلاتے ہیں اور سراج دین آڑھتی نے انہیں ان این جی او چلانے والوں میں شامل نہیں کیا تھا جو این جی او بنا کر اور مغربی ممالک سے پیسے بٹور کر پاکستان کے مظلوم طبقوں کی آڑھت کرتے ہیں۔

عبدالشکور ٹامی کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ آپ نے بکرے میں موجود زنانہ خصوصیات کا ذکر کر کے اس ناہنجار کو دنیا کے ان بڑے بڑے فیشن ڈیزائنرز اور اینکرز کے برابر لا کھڑا کیا۔ جو فیمینیٹ ہیں، ان کا کہنا تھا اور بجا طور پر کہنا تھا کہ ہر مرد میں زنانہ اور ہر عورت میں مردانہ خصوصیات ہونا چاہئیں، صرف اسی صورت میں ہمارا معاشرہ انسانی معاشرہ کہلا سکتا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ برادر آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہماری میڈیکل سائنس کب کی یہ ثابت کر چکی ہے کہ ہر مرد میں زنانہ ہارمونز اور ہر عورت میں مردانہ ہارمونز ہوتے ہیں۔ جب ان کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی ہو جاتی ہے تو جس مرد میں زنانہ ہارمونز زیادہ تعداد میں ہوں، اس میں نسوانیت کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں اور جس عورت میں مردانہ ہارمونز مقرر مقدار سے زیادہ ہوں اس میں مردانہ پن نمایاں نظر آتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں انہیں کچھ بہت اہم شخصیتوں کے حوالے بھی دیئے، جو میں لکھ نہیں سکتا، دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات براہ راست رابطہ کر کے پوچھ سکتے ہیں۔ تاہم یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ جس کا فون بھی اس سلسلے میں آیا یا اس نے خود مجھ تک پہنچنے کی زحمت کی۔ میں سمجھ جائوں گا کہ اس میں کچھ ’’کسر‘‘ ہے۔

اور اب عبدالشکور ٹامی کوہم اس کے حال پر چھوڑتے ہیں کیونکہ میں آخر میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں صرف ایک کمی ہے اور وہ یہ کہ ہمارا مرد پورا مرد اور ہماری عورت پوری عورت نہیں رہی۔ جس دن مرد، مرد بن کر اور عورت، عورت بن کر سوسائٹی کی تعمیر میں مشغول ہو گئی، اس دن ہمیں کسی عبدالشکور ٹامی کی ضرورت نہیں رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے