ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی ناکام ہو جائےگی،وزیراعظم

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہےکہ امریکی صدر کی نئی افغان پالیسی ناکام ہوجائے گی، افغانستان میں فوجی کارروائی کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو گی ،اس مسئلے کا صرف سیاسی حل ہےاوریہی اصل بات ہے ۔

امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان کا پہلے دن سے یہ واضح موقف رہا ہے کہ افغانستان میں فوجی حکمت عملی کار آمد نہیں رہی اور افغان مسئلے کا سیاسی طریقے سے ہی حل نکالا جاسکتا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا نتیجہ بھی ناکامی ہی ہوگا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کرتی ہے مگر اس جنگ کو پاکستان تک لانےکی اجازت نہیں دے گی ۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خطے میں استحکام کےلیے پاکستان بھارت سمیت ہر ملک کے ساتھ کام کرنے کےلیے تیار ہے ۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افغانستان میں سیاسی استحکام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہے امریکا کے سابقہ منصوبوں کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بھی ناکام ہوجائے گی۔

انٹرنیشنل نیوز ایجنسی بلومبرگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ‘ہم پہلے دن سے واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حکمت عملی کارآمد ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی’.

انٹرویو کے دوران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘لب لباب یہ ہے کہ اس مسئلے کا کوئی ‘سیاسی حل’ نکالا جانا چاہیے’۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ ان کی حکومت دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی حمایت کرتی ہے لیکن ہم افغانستان کی جنگ کو اپنے ملک میں سرایت نہیں کرنے دیں گے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہ اس جنگ سے امریکا کو 714 ارب ڈالر اور ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا، ‘ہم کسی کو بھی افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنے کی اجازت نہیں دیں گے’۔

وزیراعظم کا کہنا تھا، ‘افغانستان میں جو بھی ہو رہا ہے، وہ وہیں تک محدود رہنا چاہیے، پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم نہیں کرتا’۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے، جس میں ہندوستان بھی شامل ہے، جس سے امریکا نے افغان معیشت اور علاقائی استحکام کے حصول کے لیے مدد مانگی ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘افغان حکومت کو اس مسئلے کو ‘اپنا کر’ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور اگر انہیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوئی تو ہماری سپورٹ انہیں حاصل ہوگی اور جہاں تک دہشت گردی کی بات ہے تو اس سلسلے میں ہماری مدد غیر مشروط ہوگی’۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 22 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کردیا۔

امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے، ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے‘۔

دوسری جانب افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد ’بلینک چیک‘ نہیں، ’ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں’۔

اس حوالے سے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ رکس ٹیلرسن کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کا مقصد طالبان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، ساتھ ہی ‘طالبان کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم کہیں نہیں جارہے’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے