یاحضرت مولانا

اکتاہٹ حد سے بڑھ چکی تھی۔ یہ اکتاہٹ اپنے آپ سے تھی، سیاست کے نام پر نفرتوں کا کاروبار کرنے والوں کی منڈی میں صحافت بھی ایک منافقت بن چکی ہے۔اس منافقت کے گردو غبار میں سانس لینادشوار ہورہا تھا لہٰذا گردوغبار سے نجات کے لئے سفر کا ارادہ کیا۔ سفر کی منزل ایک ایسے صوفی کا مزار تھا جس کے فکر و فلسفے میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ بھی سکون اور نجات تلاش کرتے تھے اور اس صوفی کو اپنا پیر قرار دیتے تھے۔

آپ سمجھ گئے ہوں گے میری منزل ترکی کے شہر قونیا میں مولانا جلال ا لدین رومیؒ کا مزار تھا جس پر فاتحہ خوانی کی تمنا بہت سال پہلے افغانستان کے شہر غزنی میں حکیم سنائیؒ کے مزار کی زیارت کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ علامہ اقبالؒ کے کلام میں مولانا رومیؒ کا ذکر بار بار ملتا ہے اور مولانا رومیؒ جن بزرگوں سے متاثر تھے ان میں بایذید بسطامیؒ، فرید الدین عطارؒ، بہائوالدین ذکریا ملتانیؒ، شمس تبریزیؒ اور حکیم سنائی غزنویؒ بھی شامل تھے۔

حکیم سنائی غزنویؒ کا ذکر علامہ اقبالؒ نے ’’مثنوی مسافر‘‘ میں کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے 1933میں مولانا سید سلیمان ندوی کے ہمراہ افغانستان کا سفر کیا تھا۔ ندوی صاحب کی کتاب ’’سیر افغانستان‘‘ میں اس سفر کی تفصیل پڑھ کر پتا چلا کہ علامہ اقبالؒ نے غزنی میں محمود غزنوی کے مزار کے علاوہ حکیم سنائیؒ اور حضرت عثمان ہجویریؒ کے مزاروں کو ڈھونڈ کر وہاں فاتحہ خوانی کی تھی لہٰذا میں نے بھی علامہ اقبالؒ کی تقلید میں ان مزاروں کو ڈھونڈ کر فاتحہ خوانی کی۔ حضرت علی ہجویریؒ کے والد حضرت عثمان ہجویریؒ کا مزار ڈھونڈے میں قدرے دشواری ہوئی کیونکہ یہ غزنی کے پرانے قبرستان سے ذرا ہٹ کر تھا اور یہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ غزنی میں دفن عثمان ہجویریؒ اور لاہور میں دفن حضرت علی ہجویریؒ نے افغانستان اور پاکستان کو ایک ایسے رشتے میں باندھ رکھا ہے جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔

علامہ اقبال ؒ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا اور کہا کہ اگر اس دل میں فساد ہوگا تو پورے ایشیا میں فساد ہوگا۔ علامہ اقبال ؒ کے کلام میں پوری امت مسلمہ کو ایک وجود قرار دیا گیا ہے لیکن افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران اور ترکی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علامہ اقبالؒ کے مرشد مولانا جلال الدین رومیؒ افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ایران میں فرید الدین عطار ؒکی محبت سے فیض پایا، فارسی زبان کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور ترکی کے شہر قونیا میں دفن ہوئے۔ مولانا رومیؒ سے علامہ اقبالؒ کی آشنائی کی بنیادی وجہ شاعر مشرق کا فارسی زبان پر عبور تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے پیر رومیؒ کا زیادہ ذکر فارسی کلام میں کیا ہے۔ اردو میں یہ ایک شعر علامہ اقبالؒ کی اپنے مرشد سے عقیدت کا اظہار کرتا ہے؎

اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی

کئی سال پہلے افغانستان کے سفر کے دوران علامہ اقبال ؒکے پیر رومی ؒکے مزار کی زیارت کی تمنا آخر کار حقیقت بنی اور بندہ ناچیز کو اس مزار پر فاتحہ خوانی کے علاوہ مزار سے ملحقہ مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ مولانا جلال الدین رومی ؒکے مزار پر ایک بڑا سرپرائز مزار کے اندر اور باہر آویزاں خطاطی کے نمونے ہیں جن پر ’’یاحضرت مولانا‘‘ تحریر ہے۔ اردو، فارسی اور عربی پڑھ سکنے والے لوگوں کو ’’یاحضرت مولانا‘‘ بڑی آسانی سے سمجھ آجاتا ہے لیکن بہت سے ترکوں کے لئے یہ رسم الخط اجنبی بن چکا ہے، تاہم مولانا رومی ؒان کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔ 2003میں بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر مجھے بہت سے پاکستانی، بنگلہ دیشی، بھارتی اور افغان ملے تھے۔ 2017میں مولانا رومیؒ کے مزار پر مجھے بہت سے ایرانی، افغان اور عرب ملے جو مزار میں آویزاں رومیؒ کے فارسی کلام کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ کلام ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ رہا تھا۔

مزار کے ایک حصے میں مولانا رومی ؒکی مشہور مثنوی کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے۔ میں اس نسخے کی پرانی فارسی کو پڑھنے کی کوشش کررہا تھا تو ایک خاتون نے مسکرا کر مجھے انگریزی میں پوچھا ’’کیا تم پاکستانی ہو؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ یقیناً آپ ایرانی ہیں اور خاتون نے ہاں میں جواب دیا۔ پیچھے سے ایک بزرگ بولے کہ میں افغان ہوں مجھے یہاں رومیؒ کی محبت کھینچ لائی لیکن افسوس کہ افغاستان، ایران اور پاکستان کے حکمرانوں کے دل رومیؒ کی محبت سے خالی ہیں۔ اس بزرگ کے ایک جملے نے مجھے مغموم کر دیا کیونکہ افغانستان، ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے ہمسایہ ممالک ہیں جنہیں بہت سے صوفیاء نے ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔

افسوس کہ ان ممالک کی حکمران اشرافیہ کی خارجہ پالیسی واشنگٹن اور نئی دہلی کی اسیر ہے۔ عربی زبان میں مولانا کا مطلب ہے ہمارا حاکم۔ ترکی کے لوگوں نے جلال الدین رومیؒ کو اپنا مولانا قرار دیا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان کی حکمران اشرافیہ کا مولانا کوئی صوفی شاعر نہیں بلکہ واشنگٹن اور نئی دہلی ہے۔ کچھ دن پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی حکمرانوں کے ہمراہ تلواروں کے سائے میں روایتی رقص کیا تو یہ تاثر ملا کہ امریکی صدر پورے عالم اسلام کے ’’یا حضرت مولانا‘‘ بن چکے ہیں لیکن حال ہی میں امریکی صدر نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کو جو دھمکیاں دی ہیں ان پر ترکی میں بہت غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔

میں نے یہ تقریر ترکی میں سنی تو ایک مقامی ترک نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دو برادر اسلامی ملکوں افغانستان اور پاکستان کو آپس میں لڑا کر دونوں کو اپنا اسلحہ فروخت کرنا چاہتا ہے اور اپنی وار انڈسٹری کی منڈی میں ایران، ترکی اور مشرق وسطیٰ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے، ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے اس سازش کو سمجھنا چاہئے، اگر پاکستان کے حکمران امریکی امداد کے بغیر زندہ رہنا سیکھ جائیں تو پورا عالم اسلام جاگ سکتا ہے۔ میں نے اس ترک کو بہت غور سے دیکھا۔ وہ کوئی جذباتی شخص نہیں تھا۔ وہ مجھے وہی بتا رہا تھا جو صدیوں پہلے اسے مولانا رومیؒ نے بتایا تھا اور مولانا رومی ؒسے متاثر ہو کر یہی بات علامہ اقبال ؒ بھی ہمیں کہتے رہے؎

ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا

مجھے معلوم ہے کہ کچھ دانشور میرا مذاق اڑائیں گے۔ کہیں گے کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب رومی ؒاور اقبالؒ کے فلسفے میں تلاش کرنا خود فریبی ہے لیکن کیا ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے سر جھکانا خود فریبی نہیں؟ رومیؒ اور اقبالؒ نے پاکستان کو افغانستان، ایران اور ترکی کے ساتھ جس رشتے میں باندھا ہے اس رشتے کو مضبوط بنائیے اس پرانے رشتے کو اپنی نئی خارجہ پالیسی بنالیں تو واشنگٹن ہمارا ’’یا حضرت مولانا‘‘ نہیں رہے گا اور ہمیں غلامی سے نجات مل جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے