کشمیری شناخت،آزادی اظہاررائےاورحب الوطنی

نئے نئے کالج میں قدم رکھا ، نصاب کے علاوہ ہر طرح کی کتاب پڑھ کر خود کو ’اسکالر‘ ثابت کرنے کا شوق چرایا ، تو مشہور زمانہ ناول ’راجہ گدھ ‘ کے بارے میں سن کر پڑھنے کی ٹھان لی ، کالج انتظامیہ کو جانے کیا سوجھی کہ اس پر پابندی لگا دی ، وہ واحد کتاب ہے میرے مختصر مطالعہ کی فہرست میں جس کو پڑھنے کے لئے میں نے اتنے کشٹ اٹھائے ، گو اس کے بعد بعض اوقات کتابیں بیرون ملک سے بھی منگوائی ہیں ، لیکن جتنی صعوبت سے وہ ہاتھ لگی ، اس کے بعد کسی کتاب نے اتنی مشکل میں نہیں ڈالا ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس پر پابندی لگ گئی تھی ، اگرچہ راجہ گدھ پڑھ کر خود کو کوسا کہ اس میں ایسا کیا تھا (راجہ گدھ کے مداحوں سے معذرت کے ساتھ )۔

ایک بار پریس کلب میں ایک صحافی بھائی سے ملاقات ہوئی ، ان کی کتاب پر انہی دنوں پابندی لگی تھی۔ ہم نے جب استفسار کیا تو ہنس کر کہنے لگے ، ’کتاب بک نہیں رہی تھی ، پابندی کے بعد الحمدللہ دوسرا ایڈیشن چھپوانا پڑا، وجہ صرف پابندی تھی .

راولاکوٹ سے شائع ہونے والے ایک اخبار روزنامہ مجادلہ پر حال میں ہی پابندی لگی ہے ۔ پابندی سے پہلے شاید اس کی سرکولیشن یا شہرت اتنی نہ ہوئی ہو ، پابندی کے بعد وہ فورا اتنا مشہور ہو گیا کہ بیرون ملک بھی اس کے حق میں مظاہرے ہونے لگے ، پابندی کی وجہ نہایت دلچسپ ہے ، روزنامہ مجادلہ نے ایک کشمیری نژاد برطانوی صحافی کی ایک تحقیقی رپورٹ چھاپ دی تھی اور اس کی ہیڈ لائن کچھ یوں دی تھی:
’ریاست کے ۷۰ فیصد عوام علیحدگی کے حامی ‘

اب وہی راجہ گدھ کو پڑھنے والا فطری تجسس بیدار ہوا ، اور وہ رپورٹ پڑھی جو اس سارے قضیےکی وجہ بنی تھی۔ رپورٹ کافی دلچسپ ہے، اس پر اٹھنے والے شور سے زیادہ دلچسپ ، لیکن حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ اس رپورٹ کے مشمولات کچھ اور تکنیکی نوعیت کے ہیں جیسا بیان کیا جا رہا ہے ۔

یہ رپورٹ دس سوالوں پر مشتمل ایک سوالنامے پر کئے جانے والے سروے کی رپورٹ ہے۔ شور و غوغا صرف پہلے سوال کے نتائج پر ہے ۔ سوال کچھ اس طرح سے ہے۔

If you had one choice, which of the following identities would you attach yourself to

اس سوال میں خود مختاری اور الحاق کا ذکر کہیں نہیں ، اس میں صرف تشخص اور شناخت کا ذکر ہے۔ اور اس کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ تہتر فیصد لوگ کسی پاکستانی یا انڈین کی بجائے کشمیری کہلانا پسند کرتے ہیں۔ یا کشمیری تشخص کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر اتنا شور و غل ؟

ریاست جموں و کشمیر کی پوری سیاست اسی شناخت کے گرد گھومتی ہے۔ بھارتی زیر انتطام کشمیر کے علیحدگی پسندوں اور آزاد جموں و کشمیر کے قوم پرستوں کا نعرہ تو کھلم کھلا آزادی و خودمختاری اور علیحدہ شناخت ہے ہی ، دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیری تشخص یا شنا خت وہ امر ہے جس کو دونوں حصوں کی مین اسٹریم پالیٹیکس میں بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے ۔ حال ہی میں بھارت زیر انتظام کشمیر کی مین اسٹریم کی دو بڑی اور روایتی حریف جماعتیں جس ایک نکتے پر متفق ہوئی ہیں ، وہ شناخت ہی ہے ، آرٹیکل ۳۵ اے اور آرٹیکل ۳۷۰ کشمیریوں کی الگ شناخت کی ہی علامت ہیں ۔ اسی طرح ، آزاد جموں و کشمیر کی دو بڑی ریاستی جماعتیں یعنی مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی بھی ریاستی تشخص کا نعرہ اپنے ہر ’منقولہ و غیر منقولہ بیان‘ میں لگاتی ہیں ، بلکہ ریاستی تشخص شاید وہ واحد چیز ہے جس پر اس پار ، اس پار کی قوم پرست علیحدگی پسند اور مین استریم پالیٹیکس کا ہر شخص متفق ہے۔ پھر اس سوال کو سمجھے بغیر اس قدر غوغا کیوں؟

سروے میں موجود باقی سب سوال مسئلہ کشمیر کے حل کے طریقہ کار ، اور آزاد جموں و کشمیر میں گورننس کے حوالے سے ہیں۔ جیسا کہ ’مسئلہ کشمیر کے حل میں عالمی طاقتوں میں سے کون سی طاقت مدد کر سکتی ہے ؟ یا پھر یہ کہ آزاد کشمیر میں روزگار مہیا کرنے کے لئے کون زیادہ زمہ دار ہے ، عوام یا حکومت ؟ اور اس قسم کے اہم لیکن بے ضرر سوال ، تو کیا اس ساری مشق کا مقصد رپورٹ کے نتائج کو زیادہ مقبولیت دینا تھا ؟ حیرت ہے کہ انتظامیہ تک بغیر پڑھے بغیر سمجھے غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ کر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہ رہی ہے ؟ کیا یہ اظہار رائے پر پابندی نہیں ہے ؟ کیا اس کے بعد کسی دوسری جگہ پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ڈھول بجانے کا اخلاقی جواز رہ جائے گا ؟

بین الاقوامی سطح پر جو چند لوگ مسئلہ کشمیر سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں ، وہ مسئلہ کشمیر کے غیرجانبدارانہ حقائق کے علم کے بعد ہی رکھتے ہیں ، اس طرح کی مشق سے کسی کی رائے ہمارے بارے میں تبدیل نہیں ہوگی ، اور اگر مقامی سطح کوئی اجتماعیہ بیانیہ بدلنا ہے تو بھی نیوٹن کا عمل اور رد عمل والا قانون زہن نشین ہونا چاہئے ۔ اس طرح حب الوطنی اور غداری کے بے جا فتوے لگا کر سوائے انتشارکے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔پابندی مطبوعات ، اخبارات و رسائل پر لگائی جا سکتی ہے ، فکر پر نہیں ۔ حکومت اگر اپنے اطوار درست کر لے تو کسی سچ جھوٹ کی بنیاد پر کسی پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں بچے گی ، ورنہ زبان خنجر چپ ہو بھی گئی تو آستین کا لہو پکارے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے