امریکہ سے کہہ دیں کہ …..

افغانستان کے معاملے میں پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں تو امریکہ کا بھی بلنڈرز سے عبارت ہے ۔ تاہم اس وقت جنگ نہیں امریکہ سے مکالمے کی ضرورت ہے ۔ بڑھکیں مارنے کی نہیں دلیل دینے کی ضرورت ہے ۔ اپنے پاکستانیوں کے جذبات کو بھڑکانے کی نہیں بلکہ دلائل دے کر عالمی برادری کے جذبات ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے مختاروں کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے کہہ دیں کہ :

ہم وفادار نہیں لیکن تو بھی تو دلدار نہیں ۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ ہم دونوں نے مل کر لڑی ۔ آپ نے صرف ڈالرز دئیے لیکن ہم نے پورا ملک اور پورا سماج اس آگ میں جھونک دیا۔ تاہم سوویت یونین کے نکلتے ہی آپ نے اجڑے ہوئے افغانستان کو بھلا دیا اور ساری مصیبت ہمارے گلے ڈال دی۔ جنگ کے بعد افغانستان کو سنبھالنے میں تم نے ہماری کوئی مدد نہیں کی بلکہ الٹا پریسلر ترمیم کے ذریعے ہم پر پابندیاں عائد کردیں ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ ہم نے یہ غلطی کی کہ پہلے حکمت یار کو مسلط کرنے میں برہان الدین ربانی ، احمد شاہ مسعود اور دیگر مجاہدین لیڈروں کو ناراض کیا۔ پھر طالبان کو سپورٹ کرکے حکمت یار کو بھی دشمن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پھر نائن الیون تک طالبان کوایسے عالم میں مدد فراہم کرتے رہے کہ جب دو ممالک کے سوا پوری دنیا ان کی مخالف تھی لیکن اس میں بھی تو کوئی شک نہیں کہ طالبان بنیادی طور پر امریکی سی آئی اے اور یونیکال کمپنی کی تخلیق تھے اور جنرل نصیراللہ بابر نے جس طرح طالبان کو اپنے بچے قرار دیا تو کسی پاکستانی کے کہنے پر نہیں بلکہ سی آئی اے اور یونیکال کمپنی کے ایما پر قرار دیا۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ ہم نہیں بلکہ احمد شاہ مسعود بھی نائن الیون تک آپ کو دہائی دیتے رہے کہ افغانستان کی فکر کرلیں لیکن جب تک نائن الیون کی شکل میں آگ آپ کے گھر تک نہیں پہنچی تھی ، آپ اس جانب متوجہ نہیں ہوئے ۔ اور تو اور آپ لوگوں نے تو افغان مہاجرین کی بھی ہر طرح کی مدد بند کی اورپاکستان میں یو ایس ایڈ کے دفاتر کو بھی تالے لگادیئے ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ طالبان اچھے تھے یا برے لیکن پاکستان کے مخالف نہیں تھے ۔ وہ ہندوستان و ایران اور اس کے اس وقت کی پراکسی یعنی شمالی اتحاد کے مقابلے میں پاکستان کے تمام اسٹرٹیجک مقاصد پورے کررہے تھے ۔ القاعدہ نے بھی تب تک پاکستان کے خلاف جنگ ڈکلیئر نہیں کی تھی ۔ ہم نے آپ کی خاطر طالبان کی حکومت ختم کی ۔ اس سلسلے میں پاکستان نے اس حد تک تعاون کیا کہ دو سابق سفیروں یعنی ملاعبدالسلام ضعیف اور ڈاکٹر غیرت بھیر کو اسلام آباد سے گرفتار کرکے آپ کے حوالے کیا جنہیں کچھ عرصہ بعد آپ لوگوں نے رہا کروا کر ہمارے خلاف کتابیں لکھنے کے لئے کابل میں بٹھا دیا۔ ہم نے اپنی سڑکیں پیش کردیں ، اپنے ہوائی اڈے فراہم کئے۔ پورے پاکستان کو سی آئی اے اور بلیک واٹر کی چراگاہ بنا دیا۔ القاعدہ کو اپنا دشمن بنا لیا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان ، دہشستان بن گیا جبکہ آپ کے ہاں نائن الیون کے بعد کسی چڑیا نے بھی پر نہیں مارا ۔ آپ کی جنگ کی خاطر ہم نے اپنی لاکھ سے زائد فوج مغربی بارڈر پر تعینات کردی اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے فوجی جوان جس میں جنرل کی سطح تک کے لوگ شامل تھے، قربان کئے ۔ جواب میں ہمارا آپ سے ایک ہی مطالبہ رہاکہ ہندوستان کو افغانستان میں نہ آنے دیں لیکن آپ نے اس کے برعکس کیا۔ افغانستان کو نہ صرف ہندوستان کا اڈہ بنا دیا بلکہ اسے کھل کر اجازت دی کہ وہ پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑے ۔ آپ یا پھر آپ کی شہہ پر ہندوستان نے براہمداغ بگٹی اور حربیار مری کو وہاں محفوظ ٹھکانے دیئے ۔ پختونستان کے مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور پھر جب کچھ طالبان بگڑ کر پاکستان سے لڑنے لگے تو ان کا محفوظ ٹھکانہ بھی آپ کے زیرقبضہ افغانستان بن گیا۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ طالبان لیڈر تب بھی پاکستان میں چھپے ہوئے تھے لیکن 2003ء تک افغانستان استحکام کی طرف جارہا تھا۔ طالبان کی حکومت ہمارے تعاون کی وجہ سے آپ کی توقعات سے بھی پہلے ختم ہوگئی۔ آپ لوگوں سے حامد کرزئی کی ابتدائی ملاقاتیں بھی ہم نے پاکستان میں کروائیں ۔ ابتدائی دو سالوں میں افغانستان کے اندر خود کش حملے تھے اور نہ جنگ ہورہی تھی ۔ پاکستان اسی طرح پڑوس میں تھا لیکن تب افغانستان استحکام کی طرف جارہا تھا۔ انتخابات ہوئے ۔ لویہ جرگہ منعقد ہوا ۔ آئین بنا ۔ باہر سے افغان سرمائے سمیت واپس لوٹ رہے تھے لیکن آپ کے ذہن پر عراق کو فتح کرنے کا بھوت سوار ہوا ۔ افغانستان کو پوری طرح سنبھالے بغیر آپ عراق میں جا گھسے ۔ زیادہ فوجی قوت افغانستان سے وہاں منتقل کردی ۔ اس جنگ نے امریکہ کی اخلاقی حیثیت کمزور کردی ۔ابوغریب جیل کی فوٹیجز نے طالبان اور القاعدہ کے پیغام میں نئی جان ڈال دی ۔ ایران کو خدشہ ہوا کہ وہ عراق اور افغانستان میں موجود امریکی افواج کے درمیان سینڈوچ بن رہا ہے ، اس لئے اس نے بھی درپردہ طالبان اور القاعدہ کی مدد شروع کردی ۔ اسی طرح روس کو بھی خطرہ لاحق ہوا کہ امریکی افغانستان کو مستحکم کرنے نہیں بلکہ مستقل قیام کے لئے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے امریکی دانشور بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کو سب سے زیادہ نقصان عراق جنگ نے پہنچایااور ظاہر ہے کہ عراق جنگ میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ طالبان ، پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں جنگ لڑرہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ
کیا یہ افیون کی کاشت بھی پاکستان سے کی جارہی ہے ۔ طالبان نے تو اپنے دور میں افیون کی کاشت ختم کی تھی لیکن آپ کے
زیرانتظام افغانستان ایک بار پھر دنیا کا سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ اسی طرح اس وقت افغان صدر اشرف غنی اور ان کے نائب صدر رشید دوستم ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ یہ تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ کسی ملک کا نائب صدر اپنے ملک میں واپس نہیں آسکتا اور ترکی میں بیٹھا ہے۔اسی طرح وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی کی اپنے صدر کے ساتھ بات چیت چھ سات ماہ سے بند ہے ۔ اب کیا اس اندرونی سیاسی انتشار کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟

امریکہ سے کہہ دیں کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد افغانستان سے متعلق ایک ہی پالیسی رکھی ہوئی ہے لیکن آپ کی پالیسی ہر سال تبدیل ہوجاتی ہے۔ پاکستان مشورہ دیتا رہا کہ سب القاعدہ اور طالبان کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہئے۔پاکستان ماڈریٹ طالبان سے مفاہمت کی تلقین کرتا رہا ۔ خود افغان حکومت نے بھی ان سے مفاہمت کے لئے صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا لیکن صدر بش کی پالیسی ہر طرح کے طالبان سے لڑنے اور انہیں کچلنے کی تھی ۔ صدر اوباما نے اقتدار میں آنے کے بعد نئی پالیسی دی جو اپنی جگہ تضادات کا مجموعہ تھی۔ پہلے ری کنسیلیشن (Reconciliation) پر آمادہ نہیں تھے اور ری انٹیگریشن (Reintegration) کا فلسفہ جھاڑ رہے تھے لیکن پھر اسی اوبامانے قطر میں طالبان کا دفتر کھلوا دیا۔ پھر آپ کا ا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ مذاکرات کررہا تھا لیکن پینٹاگون اس کی ناکامی کے لئے سرگرم رہا ۔ اب آپ کی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک اورپالیسی دے دی جسے خود سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی مسترد کردیا۔ اوباما نے افغانستان سے نکلنے کی تاریخ دے کر طالبان کے مورال کو بلند کیا لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی یہ سامنے آئی کہ کسی صورت افغانستان سے نہیں نکلیں گے ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ طالبان سے متعلق جتنی کنفیوژن امریکہ اور افغان حکومت کے ہاں ہے ، اتنی شاید پاکستان میں نہیں ۔ کبھی یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں چھپے طالبان کو مار دو ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ان کو نکال دو ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کردو ۔ دنیا بھر میں طالبان کا واحد واضح اور اعلانیہ دفتر قطر میں ہے جو امریکہ کے کہنے پر قائم کیا گیا ہے ۔ اسی طرح طالبان کا دوسرا واضح ٹھکانہ کابل ہے جہاں عبدالسلام ضعیف اور مولوی وکیل احمد متوکل جیسے لوگ بیٹھے ہیں ۔ اب آپ لوگ ان کو نکالتے ہیں ، ان سے باقاعدہ مذاکرات کررہے ہیں اور نہ ان کو مار رہے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان میں چھپے طالبان کو اپنا دشمن بنا دے ۔اب اگر پاکستان افغان طالبان سے لڑ کر ان کو اپنا دشمن بنادے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل انہیں بھی گلبدین حکمت یار کی طرح کابل میں شاہی مہمان نہیں بنایا جائے گا؟

امریکہ سے کہہ دیں کہ آپ بار بار پاکستان کو دی جانے والی امداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے پاکستان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیںحالانکہ یہ امداد اس نقصان کا عشرعشیر بھی نہیں جو اس جنگ میں پاکستان نے اٹھایا۔ آپ لوگوں نے افغانستان میں جنگ پر جتنا خرچ کیا، اس کا ایک فی صد بھی پاکستان کو نہیں دیا۔ اور تو اور جتنی رقم آپ لوگوں نے افغانستان میں جنگ پر خرچ کی ، اس کا پانچ فی صد بھی تعمیر نو پر خرچ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کابل شہر کی سڑکیں ناگفتہ بہ ہیں ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ آپ کے بارنٹ روبن جیسے جنوبی ایشیااور افغانستان کے ماہرین اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ افغانستان میں بدامنی کی بنیادی وجہ پاکستان اور ہندوستان کا تنازع اور پھر وہاں ان دونوں کی پراکسی وار ہے ۔ اس لئے صدراوباما نے اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی لئے انہوں نے ابتدا میں جس افغان پالیسی کا خاکہ پیش کیا اس میں افپاک کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں ہندوستان کے احتجاج کی وجہ سے افپاک سے ہندوستان کو الگ کردیا گیا۔ گزشتہ سولہ سالوں میں آپ نے پاک ہند تنازع کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ چین کے تناظر میں ہندوستان آپ کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا۔ اب آپ اسے افغانستان کا وارث بنانا چاہتے ہیں ۔ آپ خود سوچ لیجئے ۔ اگر میکسیکو میں بحران ہو اور اس کو حل کرنے کے لئے کوئی قوت شمالی کوریا کو لاکر وہاں کا مختار بنانا چاہے تو کیا امریکہ اس قوت سے تعاون کرے گا۔ اب جس طرح نئے پالیسی بیان میں آپ کے صدر نے پاکستان پر تبرا بھیج کر ہندوستان کو افغانستان کا مختار بنانے کا عندیہ دیا ہے ، اس کے بعد پاکستان کیوں کر امریکہ کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے ؟

یہ تو محض ایک جھلک ہے۔ موقع ہوا توافغانستان کے حوالے سے امریکہ کی ڈبل گیم، بلنڈرز اور حماقتوں کے تذکرے سے ہزاروں صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے۔ جوابی دلائل کی کمی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو سمجھے کون اور امریکیوں کے سامنے بیان کون کرے؟ پاکستان کے ہر طرح کے وکیل تو ان دنوں اندرونی محاذ پر سرگرم پاناما پاناما کھیل رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے