عید الاضحیٰ، مویشی منڈیاں اور حیرت انگیز جانور

سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظر آرہے ہیں، تاہم سال بہ سال جانورں کی قیمتوں میں اضافے نے قربانی کے فریضے کے سلسلے میں تو کمی نہیں کی تاہم مہنگائی کے باعث اجتماعی قربانی کا رجحان ضرور بڑھ گیا ہے۔

چونکہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اس لیے کہیں کوئی خریدار بکروں کے دانت پرکھتا دکھائی دے رہا ہے تو کسی کی تمام تر توجہ اس کے وزن اور خوبصورتی پر ہے، خریدار تگڑے جانور دیکھ کر خوشی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی قیمتیں سنتے ہیں تو ساری خوشی کافور ہوجاتی ہے۔

مگر بیوپاریوں کو بھرپور توقع ہے کہ جیسے جیسے عید قریب آئے گی خریداروں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی وہ یہ دلاسہ بھی دیتے ہیں کہ آخری چند روز میں قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔

ایشیاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی یعنی کراچی میں لاکھوں گائیں اور بکرے لائے جا چکے ہیں، مگر ہوشربا قیمتوں کے باعث اکثر لوگ صرف انہیں دیکھ کر ہی گزارا کر رہے ہیں۔

منڈی میں زیریں پنجاب اور بالائی سندھ کے اضلاع سے خوبصورت اور صحت مند مویشی فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔

بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے چارے اور مہنگے کرایوں کے باعث سستا بیچنا ممکن ہی نہیں اور اگر نہیں بکا تو مال واپس لے جانے کو ترجیح دیں گے، دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے جانوروں کے باعث اس سال سنت ابراہیمی کی پیروی مشکل ثابت ہو رہی ہے۔

مگر یہ بات ضرور ہے کہ سہراب گوٹھ میں واقع یہ مویشی منڈی رات بھر میلے کا منظر پیش کرتی ہے کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کا رخ کرتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف مرد ہی نہیں خواتین اور بچے بھی وہاں پکنک منانے کے لیے آتے ہیں اور ننھے فرشتے تو والدین سے اپنی پسند کے جانور خریدنے کی فرمائش کرتے نظر آتے ہیں۔

مگر بات سہراب گوٹھ تک ہی محدود نہیں کراچی کی شاید ہی کوئی سڑک یا محلہ ایسا ہو جہاں فروخت کے لیے گائے بکرے موجود نہ ہوں، شاہراہوں اور سڑکوں پر قربانی کے جانوروں کی فروخت کا کام انتظامیہ کی ناک کے نیچے ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔

کوئی ایک بکرے کی رسی تھامے گاہک کا منتظر ہے تو کسی نے تین چار بکرے فروخت کرنے ہیں، خواتین بھی جانوروں کی فروخت میں پیش پیش ہیں، کسی نے سڑک کنارے باقاعدہ باڑہ قائم کر دیا ہے جہاں اعلیٰ نسل کے جانور برائے فروخت ہیں۔

خریداروں کا کہنا ہے کہ مرکزی منڈی اور سڑک کنارے منڈیوں میں قیمتیں ایک جیسی ہیں مگر وقت اور کرایہ مد نظر رکھیں تو گھر کے قریب منڈیوں سے سودا برا نہیں، تاہم کراچی کے عوام کو ملیر کی مویشی منڈی نے زیادہ متوجہ کیا ہے، ملیر کی جوکھیو مویشی منڈی جو شہر کے مضافات میں ہونے کے باوجود محفوظ اور سستے جانوروں کی خریداری کے حوالے سے شہریوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

عید قرباں کی مناسبت سے قصائیوں کی بھی چاندی ہوگئی ہے، جو نہ صرف منہ مانگے ریٹ وصول کر رہے ہیں بلکہ ان کے نخرے بھی آسمان پر ہیں۔

لاہور کی مویشی منڈیاں بھی قربانی کے جانوروں سے سج گئیں ہیں مگر قیمتیں زیادہ ہونے کے باعث خریداری کا رجحان کم کم ہی دکھائی دیتاہے۔

بیشتر افراد کا تو کہنا ہے کہ جانوروں کی قیمت ہی ایک لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے اور انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں، دوسری جانب بیوپاری بھی اپنی ضد پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جانوروں کو واپس لے جائیں گے لیکن کم قمیت پر فروخت نہیں کرسکتے۔

عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں بکرا منڈی قائم کی گئی ہے، عید میں کچھ ہی روز باقی رہنے کے باوجود بکرا منڈی میں ابھی خریدار کم اور بیوپاری حضرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور جو خریدار منڈی میں آرہے ہیں وہ بھی جانوروں کی زیادہ قیمتوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب بیوپاری حضرات مہنگے جانوروں کی وہی پرانی وجوہات بتاتے ہیں کہ انہیں پیچھے سے ہی جانور مہنگے مل رہے ہیں تاہم کچھ بیوپاری منڈی کے ٹھیکیدار کو بھی مہنگائی کا الزام دیتے ہیں، منڈی میں ہر طرح کے بکرے، دنبے، بیل اور گائے عید قرباں پر فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔

2014 کے بعد سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر مویشی منڈی کا کنٹرول سی ڈی اے نے سنبھال لیا ہے اور ٹھکیدار کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔

ملک بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی مویشی منڈیاں سج گئی ہیں۔

کوئٹہ میں جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے جس کے باعث لوگوں کو قربانی کے لیے جانور خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

پشاور میں مویشی منڈیوں کے ساتھ اونٹ کی منڈی بھی سجتی ہے، مین جی ٹی روڈ پر لگنے والی اس منڈی میں اونٹوں کی قیمت ایک سے دو لاکھ روپے تک ہے۔

اسی طرح جانوروں کی سجاوٹ بھی پورے عروج پر پہنچ گئی ہے، خاص طور پر بچے تو اپنے بکروں یا بیلوں کو سجا سنوار کر اپنے دوستوں میں اپنی ناک اونچی کرنے کے خواہش مند ہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو سجانے سنوارنے کا عمل ایثار کے جذبے کا اظہار ہے۔

گجرانوالہ میں سونو اور مونو نام کے دو بیل اپنی مثال آپ ہیں جن کی جسامت اور دبدبہ دیکھنے کی چیز ہے۔

خانیوال میں چار سینگوں والا دنبہ سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔

پشاور میں پاناما بیل کی دھوم ہے جس کی قیمت پانچ لاکھ روپے مانگی جارہی ہے۔

عیدالاضحیٰ محض چند دن کی دوری پر ہے اور ایسے وقت میں کانگو وائرس کے حوالے سے بھی احتیاطی تدابیر سے آگاہی کی مہم چلائی جارہی ہے کیونکہ اس سیزن میں یہ مرض کافی عام ہوجاتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق اس بیماری سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ویکسین نہ ہونے کی صورت میں خصوصاً جانوروں کی منڈی کا رخ کرتے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ وبائی مرض نہیں بلکہ یہ کسی جانور میں موجود کیڑے کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، یہ دِکھنے میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں، لہذا جب بھی جانور خریدنے کے لیے جائیں تو بہتر ہے کہ مکمل آستینوں والی قمیض پہنی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے