کراچی: پولیس اہلکاروں کے قتل اور 2014 میں سی آئی ڈی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کرنے کے الزامات پر گرفتار ہونے والا محمد شاکراللہ عرف مفتی شاکر ضمانت پر رہا ہونے کے بعد افغانستان فرار ہوگیا جہاں وہ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ کو چلانے میں مصروف ہے۔
رپورٹ کے مطابق مفتی شاکر کی موجودہ سرگرمیوں سے متعلق یہ معلومات بدھ (30 اگست) کے روز سامنے آئی۔
واضح رہے کہ مارچ 2014 میں کراچی سینٹرل جیل میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی پوچھ گچھ کے دوران مفتی شاکر نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 10 پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو قتل کرچکا ہے۔
مفتی شاکر کی جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے میں ڈان کو یہ معلومات حاصل ہوئی کہ وہ خود کو ایس پی چوہدری اسلم پر خودکش حملے میں بھی پیش کرچکا تھا تاہم اسے ایسا کرنے سے روکا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مفتی شاکر نے ضمانت حاصل کرنے کے لیے جعلی دستاویزات جمع کروائیں۔
رپورٹ کے مطابق شاکر سائٹ کے علاقے میں 1981 میں پیدا ہوا جہاں وہ اپنے 6 بھائیوں اور 9 بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا، کے ایم سی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاکر نے کراچی کے تین مشہور مدرسوں سے تعلیم حاصل کی جس میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ مذہبی عالم کا کورس بھی شامل تھا۔
2009 میں شاکر نے سائٹ میں ایک مدرسہ قائم کیا اور وہاں کا پرنسپل بن گیا تاہم یہ مدرسہ حال ہی میں سیل کیا جاچکا ہے۔
عسکریت پسندی کی جانب سفر
جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ شاکر نے 1996 میں ایک مشہور مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی جہادی تنظیم حرکات المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی تھی، مگر 2000 میں جب اس گروپ اور جیشِ محمد میں اختلافات شروع ہوئے تو شاکر نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلی۔
تاہم 2012 میں جماعت کے کراچی کے سربراہ کی ترغیب پر مفتی شاکر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (خیبر ایجنسی) میں شامل ہوگیا۔
شاکر نے 1999 میں مانسہرہ سے عسکریت پسندی کی تربیت حاصل کی اور 2012 کے دوران خیبر ایجنسی میں بم بنانا سیکھا جس کے بعد تجرباتی بنیاد پر تین بم دھماکے بھی کیے۔
سوانح جرم
شاکر نے جے آئی ٹی ارکان کے سامنے اعتراف کیا کہ جولائی 2012 میں اسے ٹی ٹی پی (خیبر ایجنسی) سے 10 ہزار روپے جرمانے کی ’چِٹ‘ موصول ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جرمانہ اس لیے عائد کیا جارہا ہے کہ شاکر کے دو بھائیوں کے سی آئی ڈی اہلکاروں سے رابطے ہیں۔
جرمانے کے ساتھ ساتھ شاکر کو ان بھائیوں سے دور رہنے کی ہدایت بھی دی گئی۔
اس نے جے آئی ٹی کو مزید بتایا کہ بعد ازاں وہ اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ خیبر ایجنسی گیا جہاں ٹی ٹی پی سربراہ سے ملاقات کے بعد اپنے خلاف لگائے گئے الزام کو مسترد کیا۔
خیبر ایجنسی میں 40 روز قیام کے بعد وہ کراچی واپس آگیا اور کام جاری رکھا، اس دوران اس نے 10 افراد پر مشتمل ایک سیل بنایا جن میں سے 4 کو بعد ازاں اس نے قتل کردیا۔